کالمز

زندگی کی حقیقت


از قلم: نمرہ آصف

یہ مال یہ شہرت یہ عزت یہ بہاریں
فقط ایک دھڑکن کے ساتھ منسلک ہیں
کچی ڈور ہے ذرا احتیاط سے جینا
جس حال میں چھوٹی ویسی ہی آزمائشیں ہیں
یہ کہانی ہے اس شخص کی جسے دولت کی حرص نے اندھا کر دیا تھا۔ یہ کہانی ہے اس شخص کی جو پیسے کی ریل پیل میں بھی مزید کا خواہش مند تھا۔ یہ کہانی ہے اس شخص کی جسے دولت نے مغرور کر رکھا تھا۔ یہ کہانی ہے اس شخص کی جو غریب اور لاچار لوگوں کو چونٹیوں کی طرح مسل دیا کرتا تھا۔ نام اس کا اکبر تھا اور وہ اپنے علاقے کا بادشاہ کہلاتا تھا۔ وہ شہر کے وسط میں ایک محل نما عالیشان عمارت میں رہتا تھا۔ شروع سے ہی اس نے اپنے گھر میں دولت کی ریل پیل، گاڑیوں کی قطاریں اور نوکروں کی بھرمار دیکھی تھی گویا وہ منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوا تھا آوارہ گردی اس کا مشغلہ اور لوگوں کو رسوا کرنا اس کا پیشہ تھا کئی فیکٹریوں کا مالک تھا اور فیکٹری کے مزدوروں کو اپنی انگلیوں پر نچایا کرتا تھا ایک دن وہ اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئ جہاں چند ایک عزیزوں نے افسوس کا اظہار کیا، وہیں کئی سو مزدوروں نے سکھ کا سانس لیا اور قرابت داروں کو اس سے زیادہ کوئی غرض نہیں تھی کہ جائیداد کا بٹوارا کر دیا جائے عام سے کپڑے میں لپیٹ کر اس کی آخری رسومات ادا کر دی گئیں۔ یوں تکبر کا ایک اور مجسمہ اپنی حقیقی منزل کو جا پہنچا وہ جو اپنے زمانے کا بادشاہ تھا، اب وہ ناچیز بن کر زمین کی آغوش میں جا سویا تھا اور اس کا سارا مال وہیں کا وہیں دھرا رہ گیا تھا وہ اسے زندگی کی حقیقت سے نہ بچا سکا تھا یہ کہانی ہے اس شخص کی جو ایک عام دیہاڑی دار ملازم تھا وہ اسی شہر کے مضافات میں ایک جھگی میں رہتا تھا وہ اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا وہ جس نے ایام کی تمام تر ترشی دیکھی تھی مگر پھر بھی صابر شاکر تھا ایک دن اس کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا اس کے جنازے پر مجمع قابل دید تھا ہر کوئی اس کی شرافت کا گواہ تھا خدا کی شان دیکھیے آخری رسومات اس کی بھی ویسی ہی تھیں اسے اک عام سے سفید کپڑے میں لپیٹ کر سپرد خاک کر دیا گیا۔ یوں ایک غریب بھی اپنی زندگی کی حقیقت کو پا چکا تھا لہٰذا ثابت ہوا کہ زندگی کی حقیقت موت کے سوا کچھ نہیں۔ زندگی کی حقیقت یہی ہے کہ وہ عارضی ہے، وہ فنا ہو جانے والی ہے ہر ذی نفس کا انجام موت ہے خواہ وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو اور زندگی اسی موت کی تیاری کا نام ہے وہ موت جو اٹل ہے، وہ موت جو برحق ہے۔ انسان خود کو اس سے کبھی نہیں بچا سکتا خواہ کتنی ہی کوشش کر لے مائیکل جیکسن کا نام تو سب نے سن رکھا ہے اس نے اپنی پوری دولت اسی موت کو جھٹلانے کے لیے لگا دی۔ ہر مرض کے لیے اس نے طبیب مقرر کر رکھے تھے جو بیماری کی صورت میں اسے بہترین طبی امداد پُہنچا سکتے تھے۔ مگر جب موت کا فرشتہ آن پُہنچا تو اُسکے طبیبوں کی لمبی قطاریں بھی ناکام ثابت ہوئیں سو جب موت ہی اس زندگی کی حقیقت ہے تو کیوں نہ اس زندگی کو اسی حقیقت کو بہتر بنانے کے لیے صرف کیا جائے کیوں نہ اپنے حقیقی گھر کی خوبصورتی کے لئے سامان جمع کیا جائے تاکہ ہماری دائمی زندگی خوشگوار ہو سکے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button