کالمز

سخت معاشی فیصلے وقت کی اہم ضرورت


مملکت خداداد پاکستان گذشتہ کچھ عرصہ سے جس تکلیف دہ معاشی بحران کا شکار ہے اس پر قابو پانے کیلئے کثیر الجماعتی اتحادی حکومت کے تجویز کردہ اقدامات اگر توقعات کے مطابق رنگ لے آئے تو ملک نہ صرف موجودہ گرداب سے باہر نکل آئے گا بلکہ تعمیر و ترقی کے نئے راستوں پر گامزن ہو سکتا ہے۔ قومی سلامتی کا تصور معاشی سلامتی کے گرد گھومتا ہے اور معاشی خود انحصاری اور خود مختاری کے بغیر قومی خود مختاری اور وقار پر دبائو آتا ہے-
پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران پر کھڑا نظر آرہا ہے اور اب سیاست میں بھی سب سے زیادہ بات معیشت اور معاشی اشاریوں خصوصا مہنگائی پر ہورہی ہے۔ پاکستان کی معیشت ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں سے چند قدم آگے دیوالیہ پن کی سرحد کھڑی ہے آج ہمارے سامنے سری لنکا کی مثال موجود ہے کہ کوئی ملک دیوالیہ ہوجائے تو وہاں کے عوام کن مشکلات سے دوچار ہوجاتے ہیں- پاکستان اربوں ڈالر کا مقروض ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ قرضوں کی واپسی ناممکن ہوچکی ہے بلکہ ان پر عائد سود کی ادائیگی بھی نہیں ہوپارہی-
پاکستان اس طرح کے بحران کا سامنا پہلی مرتبہ نہیں کررہا۔ گزشتہ بیس برسوں کے دوران ہمیں 1998-99، 2008، 2013 اور 2018-19 میں ایسے ہی یا ان سے بھی بدترحالات کا سامنا رہا۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ معاشی بحران ہر بار اس وقت رونما ہوتے ہیں جب ہم مجموعی طلب میں اضافے کا مشاہدہ کرتے ہیں کیونکہ معاشی ترقی کی وجہ سے قوت خرید میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب فی کس آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے، کاروبار پھیل رہے ہوتے ہیں اور لوگ زیادہ خریداری کرتے ہیں۔
دوسری طرف ملک میں پیٹرولیم یا تیار شدہ مصنوعات، مشینری اور آلات، کیمیکلز، لوہا اور اسٹیل، صنعت کے لیے خام مال حتی کہ دالوں، سبزیوں کا تیل، خشک دودھ بھی پیدا کرنے کی اتنی صلاحیت نہیں۔ چونکہ گھریلو پیداواری صلاحیت اس طلب کو پورا کرنے سے قاصر ہے، اسلئے درآمدی بل بڑھ جاتا ہے۔ سامان اور خدمات کی برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی، محنت کش افرادکی ترسیلات زر اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بھاری بھرکم درآمدی بل سے کہیں کم رہ جاتی ہے۔ اس طرح ادائیگیوں کا توازن بگڑ جاتاہے۔اس سوال کو حل کرنے کی ضرورت ہے کہ اس شیطانی چکر سے کیسے نکلا جائے ؟
یہ معاملہ پاکستانی معیشت میں ہر چند سال بعد آتا ہے خاص کر جب حکومت کی تبدیلی ہونے والی ہو۔ اسی لیے پاکستان میں آنے والی ہر حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے تاکہ پاکستان اپنی بیرونی ادائیگیوں کو مستحکم کرنے کے لیے زرِمبادلہ ذخائر میں اضافہ کرسکے۔ ایسا سال 2008 میں بھی ہوا جب بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی، پھر 2013 میں مسلم لیگ)ن(کی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی آئی ایم ایف پروگرام میں جانا پڑا اور وہ دوسرا پروگرام بن گیا جو مکمل ہوا۔
پھر عمران خان جب مسند اقتدار پر آئے تو انہیں بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ اب جب 4 سال بعد پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی ہے تو نئی آنے والی حکومت کو ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کے پاس جاناپڑگیایہ سلسلہ گزشتہ چند سال سے نہیں بلکہ گزشتہ 30 سال سے جاری ہے اور پاکستان کی معیشت ایک دائرے میں گھوم رہی ہے۔ جب بھی پاکستان کو بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے اس میں سب سے بڑا بحران زرِمبادلہ کا رہا ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں آکر ہماری معیشت زوال کا شکار ہوتی ہے۔
یوٹیلیٹی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے سستا یا مہنگا ہونے کا دارومدار ملک کی فی کس آمدنی پر ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی 1750 ڈالر، بھارت کی 1850ڈالر اور پاکستان کی فی کس آمدنی 1250ڈالر تھی، جو حالیہ بجٹ میں 1798ڈالر متوقع ہے جس کے حساب سے پیٹرول کی قیمت خطے کے ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے تاہم 25 ڈالر میں گیس خرید کر 6ڈالر اور 15 سینٹ کی بجلی پیدا کرکے 9.5سینٹ میں سپلائی کرکے عوام میں مقبولیت حاصل کرنا معاشی خود کشی ہے جس کی سزا بعد میں غریب عوام کو ہی ملتی ہے اور یہی کچھ پاکستان کے عوام کے ساتھ ہورہا ہے-
اقوامِ عالم کے لیے فوڈ سیکیورٹی بہت اہمیت اختیار کرگئی ہے۔ تیزی سے بڑھتی آبادی کی وجہ سے غذائی اجناس کی طلب بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سال 2050 تک غذائی اجناس کی طلب دگنی ہوجائے گی۔ سال 2020 میں 80 کروڑ انسان غذائی قلت کا شکار تھے اور ان میں اضافے کے خدشات ہیں۔ روس اور یوکرین مل کر دنیا کی گندم کا 20 فیصد فراہم کرتے تھے۔ مقامی سطح پر دیکھیں تو پاکستان کی آبادی 2050 سے پہلے ہی دگنی ہوجائے گی۔ اس لیے معیشت کو سب سے بڑا خطرہ فوڈ سیکیورٹی کا ہے۔
پاکستان سال 2020 سے گندم کا درآمد کنندہ ہے۔ اس سال پاکستان 30 لاکھ ٹن گندم درآمد کرے گا اور اگر پاکستان نے گندم کی پیداوار میں اضافہ نہ کیا تو ہماری ادائیگیوں کا توازن مزید بگڑ جائے گا مگر پاکستان کے لیے اس میں ایک موقع بھی ہے۔ دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں اس وقت گندم کی فی ایکڑ پیداوار 30 سے 40 فیصد کم ہے۔ اگر پاکستان اپنی گندم کی پیداوار کو بہتر بنائے اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرنے کے اقدامات کرے تو پاکستان گندم کے درآمد کنندہ ممالک کی فہرست سے نکل کر برآمد کنندہ کی فہرست میں شامل ہوسکتا ہے۔
زرعی شعبے کی ترقی کے لئے کسانوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ پیداوار کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ معیار کو بھی بڑھائیں۔ پاکستان میں بیجوں کی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری نہیں ہوئی ہے۔ باقی ہر ملک نے بیج اپنی مقامی زمین اور موسم کے مطابق ڈھال لیے ہیں۔ پاکستان کی زمین منفرد ہے، یہ نہ تو افغانستان اور نہ ہی بھارتی زمین کی طرح ہے۔ پاکستان کو بیج کی طلب مقامی زمینی حالات کے مطابق درکار ہے جس پر تحقیق اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
یو نیسف کے مطابق پاکستان کی نوجوان آبادی نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے تجارتی شراکت داروں کے لیے بے پناہ ترقی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ ہر سال، پاکستان کو بیرونِ ملک مقیم پاکستانی محنت کشوں اور مزدوروں سے ترسیلاتِ زر کی شکل میں اربوں ڈالر حکومتِ پاکستان کی طرف سے معمولی خدمات کے عوض ملتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان جارحانہ موقف اپنائے اور اس نوجوان افرادی قوت کو بروئے کار لائے۔ آج کے نوجوان پاکستان کے لیے عالمی تجارت کے دروازے کھولنے اور اسے عالمی معاشی قوت بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں-
پاکستان کا جغرافیائی محلِ وقوع اس کی حقیقی صلاحیتوں سے فوائد حاصل نہیں کر پایا۔ چین کے ساتھ اشتراکِ عمل کی بدولت بہت سے فوائد حاصل کیے گئے ہیں جن میں مزید اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا مشرق وسطی اور وسطی ایشیا کے ساتھ رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ مغربی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان نے ایران کے ساتھ تجارتی روابط نہیں بڑھائے، لیکن اب وقت ہے کہ مہنگے سمندری راستوں سے خریداری کی بجائے زمینی سرحد کے ذریعے ایران سے سستا ایندھن حاصل کیا جائے۔
درآمدی اشیاء میں ایندھن اور گیس سر فہرست ہیں حکومت کو قابلِ تجدید توانائی کے منصوبوں، ڈیموں اور شمسی تنصیبات کے ذریعے فوسل فیول سے پیدا ہونے والی بجلی کی کھپت کو کم کرنے کے لیے واضح پالیسی وضع کرنی چاہیے، اس کی تکمیل قومی ایندھن کھپت پالیسی سے ہونی چاہیے۔ ورک فرام ہوم جیسے اسمارٹ آئیڈیاز سے پیٹرول اور ڈیزل کی مانگ کم کی جا سکتی ہے۔
ان تمام درآمدی کٹوتیوں سے نجات دہندہ ایکسپورٹ سیکٹر ہے جسے سب سے بڑھ کر ترجیح دی جانی چاہیے۔ پاکستان کو ہنگامی طور پر ایکسپورٹ گروتھ پروگرام نافذ کرنا چاہیے، کیونکہ درآمدی ٹیکس یا کسی بھی اور بالواسطہ ٹیکس کی بجائے ایکسپورٹ ہی اصل ریونیو کا ذریعہ ہے۔ ان تمام نظرانداز شعبوں کو اقتصادی بحالی کے قومی ایجنڈے میں مکمل طور پر شامل کیا جانا چاہئے، کیوں کہ ہر گزرتا دن نئے چیلنجز کے ساتھ نئے مواقع کو بھی جنم دے رہا ہے۔
عالمی بینک کے سیاسی استحکام اور تشدد کے حوالے سے انڈیکس میں پاکستان 149 ملکوں میں 9ویں نمبر پر ہے۔ ہم سے نیچے صومالیہ، مالی، افغانستان، سوڈان اور یمن جیسے ملک ہیں۔ معیشت کو آگے بڑھانے کے لیے سیاسی جماعتوں میں اتفاق بہت ضروری ہے۔ سیاسی اور معاشی رسک کو الگ الگ کرنے کے لیے چارٹر آف اکانومی پر جانا ہوگا۔ اس وقت ہم صرف لگی آگ بجھانے میں مصروف ہیں جبکہ ہمیں 10 سال کا چارٹر دینا ہوگا جس پر تمام سیاسی جماعتوں کو دستخط کرنا ہوں گے…

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button