نوجوان نسل کے پر سکون ذہن کا ملکی ترقی میں کردار
"نوجوان نسل کے پر سکون ذہن کا ملکی ترقی میں کردار”
انیلا بتول اعوان (سیالکوٹ)
کسی بھی ملک و قوم کی ترقی کا دارومدار وہاں کی نوجوان نسل پر منحصر ہوتا ہے. نوجوان جس قدر حوصلے بلند رکھیں گے اس کے لیے محنت کرنا اور وسائل کا ہونا لازم ہے. عابد محمود عزام کے مطابق”بلاشبہ کسی بھی قوم کی باگ ڈور اس کی نئی نسل کے ہاتھ میں ہوتی ہے، جس طرح ایک عمارت کی تعمیر میں اینٹ ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے کہ اینٹ سے اینٹ مل کر عمارت وجود میں آتی ہے، اسی طرح ملک کی تعمیر میں ہر نوجوان کی اپنی الگ اہمیت ہوتی ہے، جس سے انکار ممکن نہیں”.
نوجوان نسل کے لیے جتنے کام کے مواقع فراہم کئے جائیں گے وہ ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکیں گے. اس کے لیے نوجوان نسل کا پرسکون ہونا بےحد ضروری ہے. جب نئی نسل کے ذہن دیگر معاشی، فکری، معاشرتی مسائل میں الجھے رہیں گے تو وہ فقط ذہن کے امراض میں مبتلا ہوں گے. یا وہ بیرون ممالک میں جانے کے خواب بننے لگتے ہیں جو کہ ہمارے ملک کو بیش تر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے. جس سے ملکی معیشت تباہ ہونے کے دھانے پر پہنچ جاتی ہے. ہر جماعت اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے نوجوانوں کے تعاون کی محتاج ہوتی ہے. یہی وجہ ہے کہ ہر جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے نوجوانوں کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل ہو، کیوں کہ کسی بھی ملک، قوم یا معاشرے میں حقیقی اور مثبت تبدیلی نوجوان ہی لاسکتے ہیں، جب نوجوان مخلص ہوکر اپنے ملک و قوم کے لیے محنت اور جدوجہد کرنے لگتے ہیں تو مثبت تبدیلی، ترقی اور بہتری کو کوئی نہیں روک سکتا، کامیابی ان کے قدموں کی دھول ضرور بنتی ہے. نوجوانوں کی شمولیت کے بغیر ترقی ممکن ہی نہیں. وہ کسی بھی قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں. اگر نوجوانوں میں یہ شعور بیدار ہوجائے کہ ملک و قوم کو بام عروج پر پہنچانے کے لیے ان کی اہمیت کیا ہے تو وہ اپنی تمام تر توجہ ملک کی تعمیر و ترقی پر مرکوز کر دیں، تو ہمارے ملک کے آدھے سے زیادہ مسائل تو ویسے ہی حل ہو جائیں.
سابق امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ نے کہا تھا کہ:
"ہم نوجوانوں کے لیے مستقبل تعمیر نہیں کرسکتے، مگر ہم مستقبل کے لیے اپنے نوجوانوں کی تعمیر کر سکتے ہیں”.
لہذا نوجوان کے لیے کام کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں اپنا کردار ادا کر سکیں اس کے باعث ہی وہ پرسکون رہیں گے کیوں کہ اگر نوجوان نسل کے پاس اپنا ہنر بروئے کار لانے کے لیے وسائل موجود ہوں تو وہ بہتر طور پر حق ادا کرے گا. اس معاملے پر غور فکر کی ضرورت ہے خدارا اداس نسلیں پیدا نہ کریں یہ فقط معذور بچے ہی رہ جائیں گے جو ملک کے لیے تباہی کا باعث بن جائے گا.