کالمز

سیلاب

سیلاب


سجل ملک اسلام اباد
یہ لفظ سیلاب خوف کا استعارہ ہے طوفان کے جیسا لگتا ہے اور اسے سن کر بڑے بڑے گھبرا جاتے ہیں کیونکہ یہ سب بہا کر لے جاتا ہے بستیاں گھر اور گھروں میں رہنے والوں سب کو بے نام و نشان کر جاتا ہے یہاں تک کہ بچوں کے گھروندوں کو بھی نوجوانوں کی آرزوئیں اور بوڑھوں کی امیدوں کو بھی سب سیلاب کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں لیکن پھر بھی زندگی جیتی ہے چلتی ہے ایک امید باقی رہتی ہے لیکن اگر یہ سلاب نفرتوں کا ہو بے حسی کا ہو مجبوری کا ہو تعصب کا ہو انتقام کا ہو یہ وہ سارے سیلاب ہیں جن کے گرداب میں ہماری سوچ ہمارے رویے اور ہمارا اندرسب ڈوبا ہوا ہے یہ باہر کے سیلابوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتے ہیں اور اگر ان کے بند ٹوٹ جائیں تو پھر کچھ بھی نہیں بچتا امید بھی نہیں۔
تو پھر ہمیں سوچنا ہوگا بلکہ سوچنا چاہیے کہ قوم عاد کو تو ہواؤں کے طوفان نےگرد بنا کر اڑا دیا قوم ثمود و لوط کو ان کی نافرمانی کی سزا دی گئی تھی اور شہر بابل کے باشندے عیاشی کی بھینٹ چڑھ گئے تھےلیکن ہم کیوں خود کو خود برباد کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔
کسی دانش مند نے کہا تھا کہ زندگی میں خوش رہنے کے لیے بہت زیادہ بے حسی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس بے حسی نے تو خود مختار انسان سے اس کی ساری مختاری ہی چھین لی اور یہ صرف اور صرف الہ کار بن کر رہ گیا جو اپنی مرضی سے اپنی انکھ کو بھی جنبش نہیں دے سکتا اس وقت ہماری قوم رحم و کرم کے اس کنارے پر ہے جہاں انہوں نے اپنے بچاؤ کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے چھوڑ دیے ہیں نا امیدی و مایوسی کی نیند یہ کھلی انکھوں سے سو رہے ہیں خود غرضی اور ذاتی و مالی مفاد نے ان کی آنکھوں سے آنسو تک چھین لیے ہیں یہ روتے تو ہیں لیکن ان کا رونا آنسوں کو ترستا ہے اور یہ شاید کسی کشتی نوح کی امید میں سانس لے رہے ہیں کہ کوئی کشتی نوح آئے گی اور ہمیں بچا کر لے جائے گی لیکن یہاں پر یہ بات تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھنا ہوگی کہ کشتی نوح نے کس کس کو بچایا تھا اور جو ڈوب گئے تھے وہ کون تھے اور وجہ کیا تھی اس سے پہلے کہ کشتی نوح کے انتظار میں ہماری اس قوم کی اور اس دھرتی کی بینائی دھندلی ہو جائے ہم سب کو اپنے اندر کے ان سیلابوں پر بند باندھ کر نفرت تعصب انتقام کے ان پودوں کو اکھاڑ کر پھینکنا ہوگا تاکہ ہم اپنے پودے اور پیڑ سر سبز کر سکیں سانس لینے کے لیے امید کے لیے اپنے نام و نشان کی بقا کے لیے۔
اس سے قطع نظر کہ ہمارا کیا ہے اور تمہارا کیا ہے اس سے پہلے میر تقی میر کا یہ شعر ہم سب کو سننا پڑ جائے۔
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button