کالمز

زندگی کی حقیقت

ازقلم:راحیلا گل پنوں عاقل

زندگی میں دکھوں اور تکلیفوں کے طوفان کو ضبط کرنا کردار کا ایسا معراج ہے جو انسان کے سینے میں وزن پیدا کرتا ہے,زندگی کی حقیقت سے جس نے آؤ بھگت کرلی اس کا یہ وزن تسکین بنتا ہے,اور جو حقیقت سے ناآشنا ہوا وہ اس کے لئے یہ باب ثقیلہ کی مانند ہے
درحقیقت اس کا اصل باب وجود ہے جس کا صرف ایک ہی نتیجہ ہے بندگی.پھر اسکی بندگی کے کئی درجات ہیں کوئی والدین کی خدمت کرکے اس حقیقت سے آشنا ہوکر اویس قرنی جیسا مقام پالیتا ہے ,اور کوئی مجازی عشق میں فنا ہوکر لیلہ مجنوں جیسے افسانوں میں خود کو فنا کردیتا ہے,کوئی ابن خلدون جیسا تاریخدان بن کر عصبیت پر پہنچ جاتا ہے,کوئی خدمتبکو مقصد زندگی بنا کر عبدالستار ایدھی بن جاتا ہے.درحقیقت بندگی کا اک جز احکامات کی پیروکاری بھی ہے
پیروکاری انسان میں وسعت پیدا کرتی ہے,قوت احساس اور تقویت دیتی ہے انسان میں خاموشیاں پیدا کرتی ہے اس کی وجاہت میں رعب لاتی ہے صرف خالق کے آگے تکلیف بیان کرنے کا شرف دیتی ہےاذیت ناک رویوں کو بھولنے کا حوصلہ دیتی ہے,زندگی کا بوجھ لئے وہی انسان گھومتے ہیں جو اس کی گہرائی سے غافل ہوتے ہیں,ان کے آگے لوگوں کی ہنسی طنزیہ ہوتی ہے جو گھنٹوں اس کو انسان سوچ کے اپنا آپ ختم کردیتا,ہے,معاشرے کی سوچیں اس کے لئے وبال بنی ہوئی ہوتی ہیں اس کی فکر میں وہ خود کو قابل المانع کردیتے ہیں کامیابیوں کے لئے ایسے لوگوں کو ہزار تدبیریں کرنی پڑتی ہیں جو کے توکل علی اللہ کے بغیر ہوتی جنکا نتیجہ مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ملتا اور ان جفاکشیوں کے پیچھے راز ,مصلحتیں اور نعم البدل سے بے خبر رہ کر خود کو بے مول کردیتے ہیںیکسوئیت جن میں نہیں ملتی وہ زندہ دل کو مردہ کردیتی ہے انکے سینوں میں وہ شادابیاں نہیں ملتی ان کے چہروں میں ویسی رونق نہیں ملتی مایوسی تو ایسا سایہ ہے جو چہروں پر صبح صادق کی طرح چہرے پر نمایاں ہوتا جب کہ یکسوئیت رو عالم ارواح کا وعدہ ہے,
پھر اس بندگی کی درجہ بندی کی جاتی ہے بشرط وہ درندگی میں نہ بدلے اگر بدل گئی تو پتہ نہیں کہاں سے پکڑ ہو,روحوں کا جوڑ اس بندگی سے ملتا ہے ولایت کا حصول اسی یکسوئیت سے ہوا.پہاذلڑوں جیسی منزلیں اس حوصلے نے پارکروائی ہیں
اور اسکا آخر حاصل تسکیں ہےبے شک آپ اپنی منزلیں پالیں نام تمام کردیں,اردگرد کے لوگوں کے لئے قابل رشک بنیں مگر بندگی نہیں اور اس کی درجی بندی میں رکھے احکامات کی پیروکاری نہیں تو آپ اک بے سکونی لے کر چلتے ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button