کالمز

توکل


از قلم: عمارہ شوکت
حج پر جانے کی عمران صاحب کی دیرینہ خواہش تھی۔ اس خواہش کی تکمیل کے لئے انہوں نے دن رات ایک کر کے پیسہ جمع کیا اور آخر کار وہ دن آ گیا جب وہ اس قابل ہو گئے کہ اپنے اس خواب کو پورا کرے۔ انہوں نے کچھ جمع پونجی اپنی بیوی کے ہاتھ میں تھمائی کہ انکی واپسی تک گھر والوں کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ دوسری طرف انکی بیوی انکے اس فیصلے سے نا خوش تھی۔ اسے ڈر تھا کہ اگر اسکے شوہر کی واپسی تک یہ جمع پونجی ختم ہو گئی تو وہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کیسے بھرے گی۔ اس نے اپنے اس خوف کا اظہار عمران صاحب سے کیا۔ قریب ہی بیٹھی عمران صاحب کی بیٹی یہ سب باتیں سن رہی تھی۔ وہ اپنی ماں سے بولی "امی جان آپ بابا جان کو حج پہ جانے دیں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں وہ ہمیں کبھی تنگ دستی نہیں ہونے دے گا” اپنی بیٹی کو ایمان کی پختہ حالت میں دیکھ کر عمران صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہیں اپنی بیٹی پر فخر محسوس ہوا۔
عمران صاحب حج کے لیے نکل گئے تھے۔ کچھ دن گزرے تو وہی ہوا جسکا انکی بیوی کو ڈر تھا۔ خاندان کو کھانے کے لالے پڑ گئے۔ انکی بیوی نے اس سب کا زمہ دار انکی بیٹی کو ٹھہرایا۔ اپنی ماں کی باتیں سنتے وہ اٹھی، وضو کیا اور جائے نماز بچھا کر بیٹھ گئی اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لیے۔ اللہ سے اپنے خاندان کی مدد اور بحالی کی دعا کرنے لگی۔ اس نے دعا کی کہ "اے اللہ تعالیٰ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ جو آپ پر بھروسہ رکھے گا اسے کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے تو اب اپنے اس وعدے کو پورا کریں” وہ دعا میں مصروف تھی کہ اسی اثناء میں دروازے پر دستک ہوئی۔
دروازہ کھولا تو کچھ پیاسے مسافروں کو کھڑا پایا جو اس سے پانی مانگ رہے تھے۔ وہ اندر گئی اور گھر میں پڑے سب سے بہترین برتنوں میں پانی بھرا اور مسافروں کو پلایا۔ پانی پی کر اس قافلے کے رہبر نے اس لڑکی سے ملنے کی خواہش کی جس نے ان پہ یہ احسان کیا تھا۔ لڑکی کو حاضر کیا گیا اور معلوم کرنے ہر اسے پتہ چلا کہ یہ رہبر اس علاقے کا گورنر ہے۔ عمران صاحب کی بیٹی نے اپنی مشکل گونر کے سامنے بیان کی کیونکہ وہ جان چکی تھی کہ یہ شخص خدائی مدد گار ہے۔ اسکی فریاد سن کر گورنر نے اعلان کیا کہ اسکے باپ کی واپسی تک اسکی اور اسکے خاندان کی دیکھ بھال کی زمہ داری اسکی ہے۔
یہ سب صرف عمران صاحب کی بیٹی کے خدا پر پختہ یقین اور بھروسہ کی بدولت ممکن ہوا۔ لہذا حالات جیسے بھی ہوں ہمیں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں نا کی یقین ایسا ہو کہ سامنے سمندر بھی ہو تو بھروسہ ہو کہ میرا رب راستہ بنائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button