کالمز

زندگی کی حقیقت!

        از قلم: سدرہ اختر

اقبال نے کہا تھا
زندگانی ہے صدف قطرہ نیساں ہے خودی !!! وہ صدف کیا جو قطرے کو بھی گوہر کر نہ سکے !!!
ہو اگر خودنگر خود گر خود گیر خودی !!! تو یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے !!!
حقیقی زندگی اگر صحیح معنوں میں بیان کی جائے تو ایک ہی جملہ کافی ہے؛”دنیا میں خالی ہاتھ آئے تھے خالی ہاتھ جانا ہے”مگر اس نفسا نفسی کے دور میں تو ہم یہ بھول ہی چکے ہیں ناجانے کتنے گناہ کرتے ہیں دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر یہ بھی بھول گئے ہیں کہ ان گناہوں کا کفارہ بھی ادا کرنا ہے۔موت زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور بے شک موت بر حق ہے ۔ساری زندگی سکون کی تلاش میں بھٹکتے ہیں۔ایک حقیقت یہ بھی ہے ہم سوچتے ہیں کہ ہمارے بغیر کوئی کیسے رہے گا اور یہی ہماری سب سے غلط سوچ ہے۔زندگی کی حقیقت بس اتنی سی معلوم ہوتی ہے انسان ایک پل میں ہی ماضی بن جاتا ہے۔ساری زندگی مال و دولت کے پیچھے بھاگتا ہے لیکن یہ بھی نہیں جانتا نادان کہ خالی ہاتھ آیا تھا خالی ہاتھ ہی جائے گا۔حقیقتوں اور امیدوں کے درمیان اگر توازن قائم کرلیں تو ہو سکتا ہے زندگی میں دکھ تھوڑے کم ہوجائیں۔عالیشاں گھر,برینڈیڈ کپڑے صرف ایک گز زمیں کے ٹکڑے اور کفن میں تبدیل ہوجائینگے۔زندگی کی حقیقت یہی ہے کے آتے ہوئے آزان جاتے ہوئے نماز !! مختصر سی زندگی ایک امتحان گاہ ہے جس میں آپ نے امتحان دینا ہے اور پھر نتیجے کی صورت میں انعام یا سزا پاہیں گے !!!
امتحان میں کٹھن حالات ہیں مشکلات ہیں, پریشانیاں ہیں, پھر خوشیاں ہیں, آساہشیں ہیں, فریب ہے ,جھوٹ ہے, تو عزت و غیرت حمیت اور پھر ایمان ہے یہ سب آگ بھی ہیں اور سمندر بھی جن کو ٹاپنا پڑتا ہے اور پھر منزل تک پہنچنا ہوتا ہے۔
انسان پل بھر میں رنگین خواب دیکھنا شروع کر دیتا ہے نادان یہ بھول کر کہ زندگی ہی ایک خواب ہے اور جس دن یہ خواب ٹوٹ گیا اس دن زندگی کی حقیقت ایک خوفناک تعبیر بن کر سامنے آئے گی۔
در حقیقت زندگی ایک کرائے کا گھر جس کا کرایہ ہمارے اعمال ہیں اور ایک نہ ایک دن ہمیں اس گھر کو خالی لازمی کرنا پڑے گا۔
جب میں نے زندگی کو قریب سے جاننے کی کوشش کی تو بس فقط اتنا ہی جان پائی کہ چند سانسیں لے رہی ہوں اور وہ بھی اوپر والے کی محتاج ہیں نہ جانے وہ کب اس محتاجگی سے نجات دلا دے۔اور میں بھی پل بھر میں ایک ماضی بن جاؤں۔
زندگی پر غور کرو تو معلوم ہوگا کہ یہ رنگین خیالوں کے علاوہ کچھ نہیں!!!!!میری زندگی تقریباً آدھی سے زیادہ یہ سوچتے ہوئے گزر گئ کی میں اس دنیا میں آئی کس وجہ سے۔ بعض اوقات ہمیں اپنی من چاہی چیزیں میسر نہیں ہو پاتیں۔ اور انہی تلخیوں تلے دب کے انسان اپنی باقی کی خواہشات بھی مٹا دیتا ہے۔ لیکن زندگی کا فن یہ ہے کہ اسے گزارا نہیں بلکہ ہمت اور بھرپور طریقے سے جیا جائے۔زندگی جہاں بہت ہی خوبصورت ہے وہاں انسانی تاریخ میں رنج و الم کا بحر بے کنار بھی ہے۔زندگی کی حقیقت کو جو سمجھ جائے تو وہ انسان بن جائے۔ہم بھول چکے ہیں خود کی زندگی کو ہی۔ہم کون ہیں کہاں سے آئے ہیں کہاں جانا ہے سب بھول چکے ہیں۔اگر زندگی کی حقیقت کو سمجھنا ہے تو پہلے ہمیں خود کو سمجھنا پڑےگا۔جس دن ہم خود کو جان جائینگے اپنے آنے کا مقصد جان جائینگے اس دن ہم زندگی کو سہی معنوں میں جان لینگے۔ہم نے زندگی کو اپنے اپنے کاموں میں مصروف کر رکھا ہے کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کہ حقیقت کیا ہے۔دن میں پانچ بار اللہ ہمیں بلاتا ہے لیکن اتنے مصروف ہیں کہ سنتے ہی نہیں۔
اللہ نے ہمیں آدم کی اولاد بنا بنا کر یہاں بھیجا کیوں بھیجا کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔اس نفسا نفسی کے دور میں ہمیں سجدہ کرنے کی بھی توفیق نہیں مل رہی گناہ کمائے جارہے ہیں اس حقیقت کو بھول کر کہ گناہوں کا کفارہ اس دنیا میں نہیں تو اگلی دنیا میں ادا کرنا ہوگا۔
زندگی سب سے پہلے کسی اور کے لیے جینے کا نام ہے۔احساس زندگی کا دوسرا نام ہے۔جس دن ہمارے اندر احساس ختم ہو گیا تو سمجھ لینا کہ ہم مر چکے ہیں ہمارا ضمیر مر چکا ہے ہم امتحان میں فیل ہو چکے ہیں۔یہ زندگی کی بہت تلخ حقیقت ہے۔
زندگی تو فانی ہے ایک دن ختم ہو جائے گی۔کیوں نہ ہم سب خود کو پہچان لیں۔اگر خود کو پہچان لینگے اپنے ضمیر کو جگا لینگے تو ہمیں اپنے گھر جاتے ہوئے ڈر نہیں لگے گا اپنے اصل گھر یعنی آخرت جہاں سے آئے ہیں وہی جائینگے۔ساری زندگی اس سوچ میں گزری کہ لوگ کیا کہینگے لوگ کیا کہینگے۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ لوگ بس اتنا کہینگے!!!!!!!!
"انا للا ہی وانا الیہی راجعون”.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button