کالمز

آباء کی قربانیاں اور ہمارے اطوار

آباء کی قربانیاں اور ہمارے اطوار
از قلم: مریم بتول، نوشہرہ سون ویلی

لاکھوں معصوموں کی جانوں کے نذرانے
لاکھوں عصمتوں کی پامالی، لاکھوں بے سہاروں کے سہارے چھننے، لاکھوں بچوں کے یتیم ہونے، لاکھوں ماؤں کے کلیجے نشتر ہونے، لاکھوں اعتماد بے اعتماد ہونے، لاکھوں مکینوں کے دربدر ہونے، لاکھوں فاقہ کشوں کی فاقہ کشی سے موت ہونے، لاکھوں دوستیاں دشمنی میں بدلنے لاکھوں جنازے ادا ہونے اور لاکھوں عہد قضا ہونے کے بعد ہمیں بغیر تلوار و اوزار کے استعمال کے بلآخر 14 اگست 1947 کو وطنِ عزیز پاکستان ملا۔ قدر کیجیئے اُن کی، جن کا اس گلشن کی آبیاری میں خون بہا، جنہوں نے بے مثال قربانیاں دیں، جنہوں نے خود تکالیف سہہ کر آسائشیں ہمارا مقدر کیں،کہ جنہوں نے اس گلشن کو اپنے پسینے کی بوندوں سے سینچا کہ آج ہم آزادی سے سانس لینے والے کہلائے جاتے ہیں۔ کہ آج ہم حرکت و عمل سے بیگانہ لوگ سبز ہلالی پرچم آٹھا کر اس کی آزادی کے گیت گاتے ہیں۔ ہم محب وطن ہونے کا ثبوت اس دن جھنڈے لگا کر، باجے بجا کر ، سبز و سفید لباس پہن کر، چند تقاریروں اور جلسوں کے ذریعے، اور چند ملی نغمے گنگنا کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے محبِ وطن ہونے کا حق ادا کر لیا تو وہ بھی انھی پاک اور بے لوث روحوں کی بے نظیر کاوشوں، محنتوں، قربانیوں، دعاؤں اور وفاؤں کا صلہ ہے۔ ورنہ یقیناً ہم تو اس دکھاوے کے بھی قابل نہیں۔ کہ با خدا ہماری یہ زہر آلود زبانیں تو جشنِ آزادی مبارک کہنے کی بھی مستحق نہیں۔

ہاں یاد ہیں ہم کو جو ستم تم نے تھے پائے
تم نے تھے بہت آنسو اور خون بہائے

اتنا بھی کوئی دیکھا نہیں قوم کا حامی!
آزادی کی خاطر جو جاں سے بھی جائے

تم نے ہی لہرائے تھے اخلاص کے پرچم
روشن ہے جو ہر شہر، دیئے تم نے جلائے

اولاد تھی ماں باپ تھے، تھے بہن اور بھائی
تھے خون کے رشتے بھی پسِ پشت گرائے

تم نے جو جلایا تھا بدن یاد ہے ہم کو
تم نے ہی وفاؤں کے تھے انبار لگائے

تم لوگوں کی ہم پہ عنایت ہے کبیرہ
ہم جیسوں نے کب ہیں احسان چکائے

ہے قرض تمہارا یہ وطن کی مٹی
تم کو تو خدا جنت الفردوس دلائے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button