اہم خبریںکالمز

ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

**~فاطمہ سرور (صوابی)نبی پاکؐ کا قول ہے کہ؛ "علم حاصل کرو چاہے تمھیں چین جانا پڑھے۔” علم چاہے دینی ہو یا دنیاوی یہ بچوں کا بنیادی حق ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر بچوں میں شعور کا مادہ کبھی بھی پروان نہیں چڑھتا۔ اسی حوالے سے مزدور کار بچوں اور پسماندہ نوجوانوں کے لیے پاکستان میں سولر نائٹ سکول کا اجراء محمد روحیل ورند نے کیا۔ Students Learning Under the Moon (چاند کے نیچے سیکھنے والے طلباء) پاکس

تان کا پہلا فیجیٹل (Phygital) سکول اور دنیا کا پہلا سولر نائٹ سکول قرار پایا۔ یہ سکول دراصل غربت ، ناخواندگی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کی پہلی عظیم کوشش ہے۔ یہ فیصل آباد میں واقع ہے۔ یہ پاکستان میں رہنے والے 23 ملین سکول سے ہٹ کے ایک متابادل تعلیمی نظام ہے۔ یہ سورج غروب ہونے کے بعد بچوں یعنی مزدور اور پسماندہ نوجوانوں کو شمسی توانائی کا استعمال کرتے ہوئے تعلیم دینے کی کوشش کرتا ہے۔ سارا دن محنت مزدوری کر کے رات کو فارغ ہونے والے بچوں کے لیے ایک بیترین درس گاہ ہے۔ اس سکول کا مقصد بچوں کو انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا ہنر سکھایا جاتا ہے۔ SLUM والوں کا کہنا ہے کہ؛ "پاکستانی حکومت تعلیم دینے میں ناکام رہی۔ گزشتہ اور موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے تعلیم کے شعبے میں بہتری کے بلند دعوے کیے لیکن سرکاری اعداد و شمار ایک تاریک تصویر پیش کرتے ہیں۔ SLUM سکول پاکستان میں رہنے والے 23 ملین سکول سے باہر بچوں اور لاکھوں ناخواندہ بالغوں اور نوجوانوں کے لیے ایک متبادل تعلیمی نظام ہے۔ ان میں سے زیادہ تر اسکول سے باہر بچے سارا دن کام کرتے ہیں اور رات کو فارغ ہوجاتے ہیں۔ تو ہمارا سکول غروب آفتاب کے بعد شام 7 بجے کے قریب شروع ہوتا ہے لہذا یہ طلباء اپنے کام کے بعد آسانی سے ہمارے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں جو عام طور پر اس وقت سے پہلے مزدوری کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔” اس سکول کا اجراء 2016 میں فیصل آباد میں ہوا۔ یہ سکول سو سے زائد طلباء کو مفت خوراک، بیگز، کتابیں، کپڑے، کھیلوں کی اشیاء اور اسٹیشنری کے ساتھ اچھی تعلیم بھی دے رہا ہے۔ یہ بچوں کو اخلاقیات اور آداب سکھانے کے ساتھ ساتھ مختلف سرگرمیاں بھی کرواتا ہے۔ جیسے فیملی ڈے، سپوڑٹس ڈے، آئس کریم ڈے، عید ملن پاڑٹی، وغیرہ۔ انعامات تقسیم کی تقریبات بھی ہوتی ہیں جس میں طلباء کو چاکلیٹ، بسکٹ، کپڑے، کھانا اور دیگر تحائف دئیے جاتے ہیں۔ مسٹر روحیل دو گھنٹے روزانہ سکول کا چکر لگاتے ہیں۔ روحیل ورند نے SLUM سکول صرف 21 سال کی عمر میں شروع کیا۔ وہ رات کو شمسی پنکھے اور شمسی اشیاء استعمال کر کے پڑھاتے تھے۔ انہوں نے یہ سکول خاص طور پر مزدور کار بچوں کے لیے بنوایا تھا تاکہ گھر واپسی کے بعد وہ لوگ رات کو علم بھی حاصل کر سکیں۔ روحیل وہاں شروع سے اکیلح پڑھاتے تھے لیکن اب ان کے دوستوں نے بھی اس کا خیر میں حصہ لیا اور رضا کارانہ طور پر پڑھاتے ہیں۔ روحیل کا کہنا ہے کہ؛ "ہمیں یقین ہے کہ یہ اوپر کی طرف نقل و حرکت کا پورٹل ہے، طلباء کے لیے غربت سے بچنے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے طلباء کو IT، لیپ ٹاپ، ایڈوب فوٹوشاپ وغیرہ کا استعمال سکھا رہے ہیں۔ فی الحال ہم اپنی طالبات کو گرافک ڈیزائننگ سکھا رہے ہیں جو گھریلو ملازمہ اور نوکرانی کے طور پر کام کر رہی ہیں۔”مزید یہ بھی کہا کہ "سکول کو متعدد بین الاقوامی میڈیا اور تنظیموں، پاکستانی نیوز چینلز اور نیوز پیپرز بشمول BBC News، BBC World، BBC مستقبل، BBC News اردو، BBC News ہندی، BBC News پنجابی، گلف نیوز، ورلڈ اکنامک فورم، کی طرف سے بھی نمایاں اور سراہا گیا ہے۔ ہمارے کام کو چینی، روسی، تھائی، جرمن، البانیائی، ہندی، پرتگالی اور انڈونیشی زبان میں بھی نمایاں اور ترجمہ کیا گیا ہے۔ اب، SLUM اسکول اس تصور کو پورے ملک میں پھیلانے اور دوسرے لوگوں کو بھی حصہ لینے کی ترغیب دینے کی امید رکھتا ہے۔” جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے منصوبے کو کس طرح سپورٹ کرتے ہیں اور اگر لوگ اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں تو ان سے کیسے رابطہ کریں،خ۔ انہوں نے کہا کہ "کوئی مستقل ڈونرز نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ، ہم نقد عطیات نہیں لیتے ہیں ہم خوراک، شمسی آلات، آئی ٹی مصنوعات (لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ، پروجیکٹر وغیرہ) کی شکل میں عطیات کو ترجیح دیتے ہیں، ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ لوگ خود ایک بورڈ اور بورڈ مارکر خریدیں اور آس پاس کے غیر مراعات یافتہ بچوں کو پڑھانا شروع کریں۔ہم نے بچوں کے مزدوروں اور پسماندہ نوجوانوں کے لیے "دنیا کا بہترین اسکول” بنانے کی پوری کوشش کی۔” یہ روحیل کے لیے ایک ڈریم پراجیکٹ ہے کیونکہ اس میں روحیل کی بہت محنت اور لگن شامل ہے۔ اس نے اپنے SLUM سکول (ایک متبادل تعلیمی نظام) کے لیے جتنا کچھ کرسکتا تھا وہ بخوبی کیا۔ کیونکہ اس کا خیال ہے کہ ہمارا ملک ہمارے اوپر ہے اور جو بھی نقصان ہمارے نوجوان اٹھا رہیں ہیں ان کا ازالہ کرنا ہر ایک کا اولین فریضہ ہے۔ کئی دہائیوں سے پاکستان ناخواندگی میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ صرف تعلیم سے ہی پاکستان کا حال اور مستقبل روشن ہوسکتا ہے۔ اس لیے اس مقصد کے لیے بہت انتھک محنت کی ضرورت ہے تاکہ 23 ملین پسماندہ بچوں اور لاکھوں پسماندہ نوجوانوں کو ایک روشن مستقبل دیا جاسکے۔ روحیل ورند نے ایک نیک کام کے لئے قدم بڑھایا ہے۔ انہوں نے پاکستان کا مستقبل روشن کرنے کے لیے یہ متبادل تعلیمی نظام متعارف کروایا اور اپنے ہم وطنوں کو بھی دعوت دے رہے ہیں۔ اللہ روحیل کے اس مشن کو جاری وساری رکھے اور ان کا مقصد حیات یعنی ایک روشن نوجوان پاکستان کی تشکیل کا اجر عظیم ان کو ملے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ؛ہو میرا کام ہو غریبوں کی حمایت کرنادرد مندوں، سے ضعیفوں سے محبت کرنا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button