کالمز

ڈگڈگی

تحریر: کرن نورین

پنکھا جھلتے جھلتے ہاتھ شل ہو گئے تھے۔ میں نے پنکھا رکھ کر دوسرے ہاتھ سے ہاتھ کو دبا کر آرام دینے کی کوشش کی ۔ بجلی گئے ہوئے ایک گھنٹہ ہو چکا تھا اور ابھی آنے میں ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا بچے اب سو چکے تھے ۔ یہ بھی غنیمت تھا کہ کمرے کی واحد کھڑکی سے بھولی بھٹکی ہوا کبھی کبھار آجاتی تھی ۔ کسی نہ کسی طرح دو گھنٹے گزر جاتے۔
میں لیٹے لیٹے آگے کا سوچنے لگی پانچ بجے بچوں کو اٹھا کر ٹیوشن بھیجنا ہے اور خود رات کی ہانڈی کی تیاری کرنی تھی ۔ پھر جب تک بجلی آ جائے گی تو کچھ سلائی کرنی ہے۔ سات بجے بچے ٹیوشن سے واپس آ جاتے ۔اگلی صبح کی تیاری کرنی ہے آٹھ بجے میاں آجائیں گے تو کھانا تیار لگا ہو۔ کیونکہ پھر ساڑھے آٹھ بجے بجلی چلی جائے گی تو گیارہ بجے آئے گی ۔ ایک لگے بندھے معمولات جس میں کوئی ہیر پھیر نہیں ہو سکتی ۔البتہ اگر غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ہو تو کو فت الگ ۔
کل معاملات میں تھوڑی تبدیلی ہونے کی وجہ سے آج کل کی نسبت کام زیادہ تھا اور کوفت سے برا حال تھا ۔ کل صبح سامنے والی کپڑے سلائی کے لیے دینے آئیں تو باتوں میں لگ گئیں نہ تو میں صفائی کر سکی، نہ روز کے کپڑے اور نہ ہی ہانڈی چڑھا سکی ۔ابھی وہ رخصت ہوکر جا ہی رہیں تھیں کہ میری بہن کا فون آگیا کہ وہ اسکول سے واپسی پر بچوں سمیت آئے گی ۔ میں جو کل کے بچے ہوئے سالن پر گزارہ کرنے کا سوچ رہی تھی کہ صفائی اور سلائی کرلوں سب چوپٹ ہو گیا اوپر اوپر سے صفائی کر کے، کھانے کا انتظام کیا ،میلے کپڑے اسٹور میں ڈال دیئے ، مشین سمیٹی کے بہن کے بچوں کو چھیڑ چھاڑ کی بہت عادت ہے ۔اسی سب میں سلائی کے کپڑے رہ گئے اور شام کو وہ خاتون لینے بھی آگئی
"مجھے تو آج ہی پہن کے جانا ہے جیسے بھی ہو آپ مکمل کر کے دیں ۔”
تو سارے کام چھوڑ کر مشین نکالی تو وقت کا پتہ ہی نہ چلا ۔ کپڑے کی آخری استری کر رہی تھی کہ ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے بجلی چلی گئی ۔آج کل بچوں کے ٹیسٹ ہو رہے ہیں تو رات کو بچوں کو اضافی وقت بھی دینا ہوتا ہے پھر بچوں کی الگ پریشانی کہ آپ میرا سوال سنیں، میاں کی شکایت کہ کھانا جلدی لگاؤ، تین کمرے کے فلیٹ میں تازہ ہوا شاذونادر ہی آتی تھی ۔ چھوٹا اونگھنے لگا کبھی پنکھا جھلیں، کبھی پاؤڈر لگائیں۔ بچے ٹارچ میں کاپیاں کھولے بیٹھے تھے ۔ دیکھ کر تھکن بڑھ گئی جیسے تیسے کام نبٹا کر بستر پر لیٹی تو تختہ ہوتی کمر کا احساس ہوا۔ سو آج کل کی نسبت کام بھی زیادہ تھا اور معاملات سے ہٹنے کی ہمت بھی نہیں تھی ۔
آج واشنگ مشین بھی لگا لی تھی اور سلائی کے کپڑے بھی آج کل کافی آئے ہوئے تھے . جتنی دیر بجلی رہی دونوں کے درمیان گھن چکر بنی رہی وقفے میں گھر کی صفائی اور کھانے کا کام مکمل کیا۔
یہ سب سوچتے سوچتے آنکھیں بھی بند ہونے لگی تھکن اس قدر تھی کہ گرمی کے باوجود نیند آ رہی تھی کہ گلی میں بندر اور بکری والا ڈگڈگی بجاتا آگیا اور کوفت سے آنکھ کھل گئی ۔ نہ جانے کیوں بچپن سے ہی بندر والے سے خاص چڑ سی تھی بھلا یہ بھی کوئی طریقہ ہے کہ بے زبان جانور کو مار مارکر کسی چیز کا عادی کردو جس چیز کا عادی ہو جائے تو تماشا لگا کر پیسے وصول کرو۔
ڈگڈگی کی آواز ظالم آواز لگتی ہے۔ جو مظلوم کو یہ احساس دلاتی ہے اگر یہ کام نہ ہوا تو اپنا انجام جان لو ۔
چھوٹے نے بستر گیلا کر دیا اس کا کپڑا بدلا اور بڑے دونوں کو پھر سے ہوا جھلنے لگی دونوں پسینے میں شرابور ہو چکے تھے عجیب زندگی ہو چکی تھی.
آج سے سات آٹھ سال پہلے ایسے حالات نہیں تھے کبھی کبھار تفریح کا موقع مل جاتا تھا ۔
آج سے آٹھ سال پہلے جب میں شادی کر کے آئی تو حالات قدرے بہتر تھے میری ساس حیات تھیں پھر مہنگائی بھی عفریت کی طرح جان سے چمٹی ہوئی نہ تھی اوپر تلے کے تین بچے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ضروریات کو محدود کر دیا اور آسائشات کے لیے خواب بھی دیکھنا ممکن نہیں رہا کم تعلیم اور اوپر تلے کے بچوں کی وجہ سے میں کوئی نوکری تو نہ کرسکی مگر لوگوں کے کپڑے سلائی کرنا شروع کر دیے اللہ نے اس میں برکت عطا کی ۔ مگر اب لوڈشیڈنگ نے یہ کام مشکل تر کر دیا ابھی میں اپنے سنہری دور کو یاد کرنے میں مگن تھی کہ گھڑی نے پانچ کا گھنٹہ بجایا اور میں جلدی سے اٹھی بچوں کو اٹھا کر واش روم روانہ کیا ۔ بچوں کا بستہ درست کرنے لگی ۔ ساتھ ساتھ ایک کپ چائے کا پانی بھی رکھ دیا جلدی جلدی بچوں کو روانہ کر کے ۔چائے اور پاپے لے کر کمرے میں آ گئی اور اپنی ہی چائے سے منے کو بھی پاپے بھگو کر کھلانے لگی ۔ ساتھ سبزی کی ٹوکری بھی اٹھا لائی بنانے کے لیے سب کچھ معمول کے مطابق تھا ۔ گھڑی نے ساڑھے پانچ کا ٹن بجایا اور مجھے ڈگڈگی کا خیال آیا ہم بھی تو اس گھڑی کی آواز اور حرکت پہ ناچتے ہیں۔صبح کے سات بج گئے باورچی بن جاؤ ساتھ ماں بن کر بچوں کو تیار کرو ۔ پھر آٹھ بج گئے اچھی بیوی کی طرح مسکرا کر شوہر کو رخصت کرو ۔ پھر نو بج گئے کپڑوں کی سلائی کرو پھر دس بج گئے گھر کی صفائی اور دوپہر کے کھانے کی تیاری بارہ بج گئے پھر بقیہ سلائی ایک بج گئے بچوں کا کھانا دینا اور سپارہ پڑھانا تین بج گئے بچوں کو سلا دو، پانچ بج گئے ماں بن جاؤ، چھ بج گئے باورچی بن جاؤ ، سات بچ گئے ماں بن جاؤ اٹھ بج گئے بیوی بن جاؤ ، دس بج گئے کیر ٹیکر بن جاؤ ڈگ ڈگ اور ہم کوئی رد و بدل اور تبدیلی کے بغیر ہی ہر کام انجام دینے پر مجبور ہیں کیونکہ آواز پہ نہ ناچے تو انجام سے باخبر ہم بھی ہیں ۔
گھڑی نے چھ بجنے کا اعلان کیا اور میں سبزی کی ٹوکری اٹھا کر کچن کی طرف بھاگی ڈگڈگی کی ڈگ ڈگ جاری تھ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button