کالمز

ہزاروں خواہشیں ایسی

وشاح محمود

انسان فطرتاً جلد باز اور نا شکرا واقع ہوا ہے ۔ اس کی پوری زندگی اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے گزر جاتی ہے ایک کے بعد دوسری ، اور پھر تیسری اور پھر خواہشات کا نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے ۔ ایک خواہش پوری نہیں ہوتی کے دوسری سر اٹھانے لگتی ہے ۔ اور یوں انسان کبھی بھی کسی خواہش کے پورا ہو جانے کی خوشی نہیں منا پاتا ۔

جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث ہے

اگر ابنِ آدم کے پاس سونے کی ایک وادی ہو، تو چاہے گا کہ اس کے پاس دو وادیاں ہوں اور اس کے منہ کو مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور اللہ توبہ کرنے والے کی توبہ کو قبول کرتا ہے۔
آج کے اس دور میں ہر انسان اداس ہے ہر کسی کو پریشانیوں اور دکھوں نے گھیرا ہوا ہے اور کوئی یہ نہیں جانتا کہ اس کی بہت سی پریشانیاں اور دکھ اس کے خود کے کمائے ہوئے ہیں ۔
کیونکہ ہمیں مل جانے والی چیز کی خوشی سے زیادہ نہ ملنے والی چیز کا دکھ ستاتا ہے ۔ اس پر یہ غم کے فلاں کے پاس تو یہ چیز ہے پھر میرے پاس ہی کیوں نہیں ۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ “ بے شک اللہ عدل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے “ تو جب وہ عدل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے تو وہ خود کتنا بڑا عادل ہوگا ؟
آپ سمجھتے ہیں کہ یہ عدل اللہ قیامت کے روز فرمائے گا جب کہ میرا ماننا ہے کہ اللہ نے یہ دنیا بناتے ہوئے اور انسانوں کو نعمتوں سے نوازتے ہوئے بھی بہت عدل سے کام لیا ہے ۔کسی بھی انسان کو نہ تو ہر چیز سے نوازا ہے اور نہ ہی کسی انسان کو ہر چیز کے لیے ترستا ہوا رکھا ہے ۔ اب آپ سوچیں گے کہ کوئی انسان بہت امیر ہے اس کی میز پر دس طرح کے کھانے پڑے ہیں اور کوئی انسان اتنا غریب ہے کہ ایک وقت کی روٹی کو ترستا ہے تو یہ کیسا عدل ہوا ۔ لیکن آپ ان دونوں انسانوں کے اصل حالات سے واقف نہیں ہیں ہوسکتا ہے وہ امیر انسان اتنا بیمار ہو کہ اس کا معدہ کچھ ہضم ہی نہ کر پاتا ہو اور اس غریب انسان کو اس غربت میں بھی اللہ نے سکون قلب سے نوازا ہو ۔ اور یاد رکھیں خوشیوں کا تعلق روپے پیسے سے ہر گز نہیں ہوتا ہے خوشیوں کا تعلق آپ کے اندر سے ہوتا ہے کہ آپ اندر سے کتنے مطمئن ہیں ورنہ میں نے محلوں میں رہنے اور جہازوں میں سفر کرنے والوں کو نیند کی گولیوں کا سہارا لیتے اور سکون کے لیے ہسپتالوں کے چکر لگاتے جبکہ کسی عام سے انسان کو پرانی سائیکل پر ٹوٹی ہوئی جوتی کے ساتھ جاتے ہوئے بھی خوش و خرم دیکھا ہے ۔ کیونکہ یہ دنیا ہے یہاں سب کو سب کچھ نہیں مل جاتا لیکن آپ کی خوشی اور سکون آپ کے اندر ہوتا ہے آپ اسے تلاش کر سکتے ہیں یہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے ۔
اب اگر یہ سوچ دل میں آئے کہ وہ تو اللہ تھا پر چیز پر قادر اس کے لیے کیا مشکل تھا کہ سب کو ہر چیز سے نواز دیتا ۔۔۔ بے شک اگر وہ چاہتا تو ایسا کر سکتا تھا لیکن پھر کوشش اور دعا کا کیا ؟
پھر اس کے اچھے اور برے بندوں میں فرق کیسے واضح ہونا تھا کیسے پتا چلنا تھا کہ کس نے اپنی خواہش پورا کرنے کے لیے غلط طریقے اپنائے اور کس نے محنت اور دعا کا سہارا لیا ۔ یاد رکھیں خواہشیں رکھنا اور ان کے لیے جائز طریقے سے کوشش کرنا بالکل بھی غلط نہیں ہے لیکن کسی خواہش کی تکمیل کے لیے غلط اور صحیح کا فرق بھول جانا اور کسی سے حسد کرنا سراسر غلط ہے ۔
اور سب سے بڑی بات خود پہ اپنے جذبات پہ قابو پانا سیکھیں ۔ خواہشیں رکھیں ، ضرور رکھیں مگر کبھی بھی کسی خواہش کو اپنا جنون مت بنائیں اس کے لیے پاگل مت ہو جائیں کیونکہ ہر خواہش پوری ہونے کے لیے نہیں ہوتی کچھ خواہشات کا مزا ان کے ادھورا رہ جانے میں ہی ہوتا ہے کیونکہ اگر ہر خواہش پوری ہونے لگ جائے تو پھر پیچھے کیا رہ جائے گا ؟ کیا زندگی بے مقصد اور بے رنگ نہیں ہوجائے گی؟ تو بہتر ہے نہ کہ کوئی نہ کوئی خواہش ادھوری رہے جس کو پانے کے لیے آپ جائز طریقے سے محنت بھی کرتے رہیں اور اس رب ذوالجلال کے سامنے گڑگڑاتے بھی رہیں کیونکہ وہ جو چاہے تو کیا نہیں ممکن ؟ اور یہ بھی تو ہوسکتا ہے نہ کہ وہی خواہش آپ کے اور آپ کے اللہ کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنی رہی اور اگر خواہش پوری ہونے لگ جائے تو کیا آپ کا اپنے اللہ سے تعلق کمزور نہیں پڑ جائے گا ۔
اور پھر بقول غالب
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button