اہم خبریںکالمز

بیٹی رحمت ہے زحمت نہیں

تحریر مریم شکیلہ

،نوشہرہ سون ویلی

بیٹی سب کے مقدر میں کہاں ہوتی ہیں گھر خدا کو جو پسند آئے وہاں ہوتی ہیں بیٹی ہو یا بیٹا یہ سب میرے خدا کی عطا کردہ ہیںوہ جسے چاہے بیٹی دے اور جسے چاہے بیٹا دے۔اسلام میں بیٹیوں کو”رحمت” اور بیٹوں کو "نعمت” کہا گیا ہے. نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ "خوش نصیب ہے وہ عورت جسکی پہلی اولاد بیٹی ہو” اللہ جب اپنے بندے سے بہت خوش ہوتا ہے تو اسے بیٹی جیسی رحمت سے نوازتا ہے اور جسے خوش کرنا ہو اسے بیٹا دیتا ہے۔ہمارے پیارے نبی حضرت محمد کی بھی چار بیٹیاں تھیں۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اللّٰہ کے آخری نبی ہونے کے باوجود اپنی بیٹیوں سے پیار کرتے تھے تو تمام انسانوں کو بیٹیوں پر مہربان ہونا چاہیے اور ان سے رحم کا معاملہ کرنا چاہیے.بیٹیاں رحمت کا دروازہ،بخشش کا ذریعہ اور جہنم کی ڈھال ہوتی ہیں۔محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”جو شخص لڑکیوں کے بارے میں آزمایا جائے یعنی اس کے یہاں لڑکیاں پیدا ہوں اور پھر وہ ان سے اچھا سلوک کرے ، انہیں بوجھ نہ سمجھے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے دوزخ کی آگ سے ڈھال بن جائیں گی”قرآن حدیث میں بیٹیوں کو بہت فضیلت حاصل ہیں۔ارشاد ہے کہ بیٹیاں بڑی نعمت ہیں،کیوں کہ ان کی پرورش پہ جنت کا وعدہ ہے۔ آج کے زمانے میں کیا ہوتا ہے کہ بیٹے کی پیدائش پر خوب جشن منائیں جاتے ہیں اور بیٹی کی پیدائش پر سارا گھر افسوس کرتا ہے ساتھ لوگوں کی باتیں بھی ہافلاں کی بیٹی ہوئی اگر کسی کی 3 بیٹیاں بھی ہیں تو لوگ بہت باتیں بناتے ساتھ میں گھر والے اس بیچاری عورت پہ بھی طعنے کستے کہ اس نے پھر بیٹی پیدا کر دیاب تو بیٹا پیدا کرتی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جس نے تین بٹیوں کی پرورش کی اس کو جنت کی بشارت ہے۔ایک آدمی آپﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہﷺ میری ایک بیٹی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تجھے بھی جنت کی بشارت ہے۔تو یہ سب باتیں بے معنی ہیں کہ اس کی پھر سے بیٹی ہوئی کیا یہ عورت کہ بس میں ہےنہیں یہ تو میرے خدا کی تقسیم ہے بھلا انسان کیا کر سکتا ہے اگر آپ بیٹیوں کے پیدا ہونے پر خوشی نہیں منا سکتے تو کم از کم غم بھی نہ کریں کیونکہ بیٹیوں کو اللّٰہ کی رحمت کہا گیا ہے اور اسی رحمت کے صدقے اللّٰہ پاک اکثر اپنی نعمتوں کے خزانے کھول دیا کرتے ہیں.بیٹیاں تو گھر کی رونق ہوتی ہیںبیٹی کی گھر میں موجودگی رنگ اور خوشبو بھر دیتی ہے۔شادی سے پہلے گھر کی خوشیاں دوبالا کرتی ہے۔اداسی میں آپ کو ہنساتی ہے۔ روتے ہوئے آپ کے آنسو پونچھتی ہے۔ غرض ہر اچھے اور برے حالات میں اپنے والدین کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں۔جتنا احساس بیٹیاں کرتی ہیں اتنا بیٹے نہیں۔ایک انگریز نے کیا خوب کہ ” بیٹا شادی تک بیٹا ہوتا ہے لیکن بیٹیاں ہمیشہ کے لیے ہوتی ہیں”۔یہ بات ماننا پڑے گی ۔میں بیٹی ہوں اس لئے نہیں ایسا کہ رہی بلکہ جو دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے وہی بیان کر رہی ہوں۔سب بیٹے ایک جیسے بھی نہیں ہوتے لیکن اکثریت کی بات کر رہی جو دیکھنے کو ملتا ہے کہ جب لڑکوں کی شادی ہو جاتی تو وہ اپنی بیوی کو اپنے والدین پر فوقیت دیتے ان سے علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں انھیں پھر پوچھتے تک نہیں ۔۔اولڈ ہاؤس کی بات کی جائے تو میں نے کبھی نہیں سنا کی ایک بیٹی اپنے والدین کو وہاں چھوڑنے گئی جب بھی سنا تو یہں کہ فلاں بیٹے نے اپنی بیوی کے کہنے پہ اپنے والدین کو چھوڑا انھیں اولڈ ہاؤس چھوڑ آئےیہ بات بیان کرنے کا صرف یہ مقصد ہے کہہمارا یہی معاشرہ بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت دیتا ہےاور بیٹے اک پل میں والدین کو چھوڑ دیتے ہیں۔میں ذاتی طور پر سمجھتی ہوں کہ بہت ساری وجوہات ہیں جن کی وجہ سے بیٹیوں سے نفرت کی جاتی ہے. ان میں سے سب سے اہم جہیز ہے چونکہ یہ دراصل جہیز درمیانے طبقے کے گھرانوں کے لئے سب سے پریشانی والا عنصر سمجھا جاتا ہے، کیونکہ ان کی بیٹی کی شادی کے لیے انکے پاس کوئی وسائل نہیں ہوتے، ایسے خاندانوں میں ان کی بیٹیوں کی پیدائش کے ساتھ ہی انکے قتل کا زیادہ امکان ہوتا ہے.جہیز صرف ایک نحوست ہے، والدین اپنی خوشی سے جو چاہے دے سکتے ہیں لیکن مجبور کرنا یا رسم و رواج بنا دینا کہیں سے بھی درست نہیں…..!”ہاں! بیٹی نہیں بلکہ جہیز ایک لعنت ہے، اور جہیز کی روایت کو ضرور ختم کرنا چاہئیے”کچھ لوگ اس وجہ سے بھی بیٹی کی پیدائش پر افسردہ ہوتے کہ انکا نصیب کیسا یو گا تو آپ لوگ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ جس اللہ نے بیٹی دی اس نے اسکا نصیب بھی بہترین لکھا ہوگا۔ہمارے معاشرے میں لوگ بیٹیوں کو زیادہ نہیں پڑھاتےوجہ؟ وجہ یہ کہ اس نے تو پرائے گھر چلے جانا ہمیں کونسا کما کر کھلانا ہے اور اسکے برعکس اپنا سارا پیسہ بیٹے کی تعلیم و تربیت پہ لگا دیتےیہ بہت غلط سوچ ہے ہمارے معاشرے کی جس کی وجہ سے ہم بہت پیچھے ہیں۔ میں ایسے لوگوں سے صرف یہ کہنا چاہوں گی کہ بیٹی کو رحمت سمجھیں زحمت نہیں اسکی اچھے سے پرورش کریں اگر آج آپ اپنی بیٹی کو اچھی تعلیم دلوائیں گے تو یہ اپکا اور اپنے ملک کا نام روشن کرے گی۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایک پڑھی لکھی باشعور ماں ایک ایسے معاشرے کو جنم دیتی ہے جو قوم کی تقدیر بدل دے۔جتنی فضیلت قرآن وحدیث کی روشنی میں بیٹیوں کو حاصل ہے اتنی تو بیٹوں کو بھی نہیں ہے۔ خود نبی کریمﷺ ایک بیٹی کے باپ ہے۔ اسلام میں بیٹیوں کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ لحاظا بیٹیوں کی پیدائش پہ خوش ہونا چاہئے نہ کے دکھی اور بیٹیوں کو حقیر نہیں سمجھنا چاہئے کیوں کہ بیٹے بیٹیاں لاتیں ہیں اور بیٹیاں بیٹے مطلب دامادلاتیں ہیں۔ہمیں اپنی سوچ کو وسیع کرنے کی ضرورت آج بھی ہیں ورنہ ہم میں اور غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button