کالمز

بے گھر ہونے کا دکھ

از قلم: محمد عمیر جٹ
عنوان: بے گھر ہونے کا دکھ

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
بے گھر ہونا کیسا لگتا ہے، کبھی سوچا؟ پردیس کا لفظ سنتے ہی آنکھ نم ہو جاتی ہے۔ خاص کر ماؤں کی، باقی بھی اندر ہی اندر خون کے گھونٹ پی کے رہ جاتے ہیں، دل ان کے بھی ابالے مارتے ہیں، خون کی گردش میں جوش ان کے بھی پیدا ہوتا ہے، دماغ کی رگیں ان کی بھی پھولنے لگتی ہیں، مگر ماں جذبات کو مجروح نہیں ہونے دیتی، وہ اس درد کی شدت سے ذہن کے گوشے میں بنتے نمکین پانی کو حفاظت نہیں دے پاتی، اسی لیے اس کی آنکھیں فوراً چھلک پڑتی ہیں، اور خاص کر وہ جن کی اولاد بے گھر ہو۔ مگر پردیسیوں کے پاس بھی گھر ہوتا ہے چاہے برائے نام ہی صحیح، مگر ہوتا ہے، آس ہوتی ہے کہ کسی رت پھر ملیں گے ۔ مگر ان کا کیا؟ جن کے پاس کوئی آس ہی نہیں، نا گھر کی نا چھت کی۔ ان کا دکھ کون جانے، کبھی اس کے در، کبھی اس کے در، کبھی در بدر، ان کے حصوں کا نمناک کھارا پانی کون بہائے گا؟ گھر کیا انسانوں کے ہی ہوتے ہیں؟ نہیں! گھر تو گھر ہوتا ہے، ہر زی روح کا گھر ہوتا ہے، کبھی کسی پرندے کو ڈار سے بچھڑنے کے بعد کھلے آسمان میں تلاش گھر میں محو پرواز دیکھا ہے؟
کبھی کسی کیڑے مکوڑے کو اپنی نسل سے جدا، اپنی ہی ذات کے دوسرے کیڑے مکوڑوں میں اپنوں کے چہرے پہچانتے دیکھا ہے؟ شاید دیکھا ہو! یہاں آپ کو بے گھر ہونے کا احساس صحیح معنوں میں دکھائی دے گا، سجائی دے گا۔ بچھڑنا آسان نہیں، یہ مجھے تب سمجھ آیا جب ایک صبح میں نہر کے پل پہ تصویر بنا رہا تھا، تصویر تو قدرتی مناظر کی تھی، مگر میری سوچ نے تصویر میں ایک ذی روح کو اس کے آبا سے بچھڑتے دیکھا، ایک کلک کے بعد اگلے کلک سے پہلے میرے ہاتھ ساکت ہو گئے، ذہن مفلوج ہو گیا، سوچ نے درد کی شدت پیدا کی تو یک دم دماغ نے کھارا پانی باہر انڈیل دیا۔ تمام مناظر نظروں سے اوجھل ہو گئے بس سوچ، نظر، اور تخیل میں وہی نظارہ جامد ہو گیا۔ کھارے پانی کی دو بوندیں آنکھوں سے باہر چھلکتے ہی میرے جسم میں ہلکی سی جنبش پیدا ہوئی اور میں نہر کنارے کیچڑ میں اگے کنول کے پودوں کے پاس چلا گیا۔ پانی اپنی زندہ دلی، اور شِتاب روانی سے، ریت کے ذروں کو خود میں گھولتا، گدلا کرتا، بھاگم بھاگ منزل کی جانب رواں دواں تھا۔
ہلکی سی ابھرتی ایک لہر نے ایک پودے کی جڑ سے ریتلی مٹی کسمسا دی اور اسے کھوکھلا کر دیا، مگر اپنوں سے جدائی کی کوفت شاید وہ جان چکا تھا، جس کے پیروں تلے مٹی ہی چھن جائے پھر اسے سوائے فنا کے کوئی اور خیال از بر نہیں ہوتا، یہی حال کنول کے اس پودے کا تھا۔ اپنوں کی باہوں نے اسے تھام رکھا تھا! یا شاید؟وہ جان گئے تھے کہ اب یہ بچھڑنے کا سماں ہے، تو سب گلے لگائے بچھڑنے کا غم منا رہے تھے۔ شاید جھنڈ کے ہر پودے کی آنکھ سے بھی کھارے پانی کی دو بوندیں ٹپکی ہوں، مگر میں ظاہری آنکھ سے باطن کو کیسے دیکھتا، نہیں دیکھ پایا۔ ایک تند و تیز لہر، ابھرتی ہوئی آئی اور اس پودے کو ازلی مسافر کر دیا، ایسا مسافر جس کا کوئی گھر نہیں ہے۔ بے گھر، بے سروسامان، بنا چھت کے، ڈُولے کھاتا کنول کا پودا محو گردوں ہو گیا۔ دور تک کن انکھیوں سے میں اسے دیکھا، یہ میں جانتا ہوں، مگر میں تو اپنا نہیں تھا، میں تو تماش بین ہوں، تماشہ دیکھا، پلو جھاڑا، اور ایک سمت کو چل دیا۔ مگر اپنوں نے کن انکھیوں سے دیکھا ہو گا؟ یہ کوئی نہیں جان سکتا۔ یہ وہی جانتا ہے جس کا کوئی بچھڑ جائے، ہمیشہ ہمیشہ کیلئے، اور جس کے ملن کی آس انہیں پھر کبھی نہ ہو ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button