کالمز

غریب لوگ کہاں جائیں‎‎

اقراء وحیداللہ

آج کل جو مہنگائی ہیں وہ متوسط طبقے کے بس سے باہر ہے تو غریب کی تو بات ہی ہم نہیں کر سکتے۔ وہ باپ جن کے چار پانچ بچے ہو اور وہ اکیلا انکی کفالت کر رہا ہو وہ ایک رکشے والا، مزدور، سبزی بیچنے والا ہو وہ کیا کرے گا؟ دن کے اگر وہ ہزار روپے بھی کما لے گا تو وہ اس میں کون کون  سی ضروریات پوری کرے گا؟ وہ لوگ جن کی کفالت انکی مائیں کر رہی ہو وہ کیا کر نگے جن کے سر پر نا باپ ہو نا بھائی۔ ہمارے معاشرے میں اکیلی عورت و

کے لیے ویسے  بھی نوکری کرنا مشکل ہوتا ہے۔وہ لوگ گوشت، پھل کا تو وہ ذائقہ بھی بھول چکے ہیں۔  ہزار روپے میں کیا کیا کرینگے کھانے کے لیے کچھ لینگے، علاج کرینگے یا بچوں کی تعلیم پر لگائیں گے۔ ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے میں نے جنہوں نے چار چار سال یونیورسٹی میں پڑھا لیکن ڈگری لینے کے پیسے ان کے پاس نہیں اور جہاں نوکری کے لیے جائے

وہ ڈگری مانگتے ہیں، ایسے لوگ کہاں جائیں گے۔ چوریاں ہی کرینگے۔ اپنے بچوں کو اب بھوکا تو نہیں مار سکتے۔ بیشک رزق اللہ تعالیٰ دیتا ہے لیکن یہاں ہر چیز پر ہر آدمی زمینی خدا بن کے بیٹھا ہے۔ جس چیز کی ضرورت پڑ جاتی ہے اس کی قیمتوں کو یہ لوگ اور بڑھا لیتے ہیں جو کے غریب عوام کے بس سے باہر ہو جاتا ہے۔ نا تو گیس ہے نا بجلی ہے اور جب بل دیکھو تو ایسے لگ رہا ہوتا ہے پورے محلے کو گیس اور بجلی ہمارے گھر سے ہی جا رہی ہو۔ آٹے کی قیمت، پیڑول کی قیمت، گھی چینی کی قیمت دودھ پیاز ہر چیز کی قیمتوں میں اضافہ ہی  ہوتا آرہا ہے۔ ٹیکس بھی انہی چیزوں پر لگ رہے ہیں جو غریب لوگوں کے استعمال میں ہو۔ غریب لوگ کہاں جائیں کس سے مانگے۔ غریب، غریب تر ہوتا جا رہا ہے اور امیر، امیر ترین بن رہا ہے۔ غربت، بے روزگاری، نا خواندگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک تباہی کے دہانے پر ہے اور ہمارے سیاسی رہنما اپنے آپسی اختلافات میں لگے ہوئے ہیں۔ انکو عوام سے کچھ لینا دینا نہیں۔ عوام کی ضرورت انکو بس الیکشن میں ہوتی ہے اس کے بعد بس ملک کو اور عوام کو لوٹنے میں لگ جاتے ہیں۔

اقراء وحیداللہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button