زندگی کی حقیقت
بقلم: بنت ایوب مریم
ساہیوال
زندہ رہنے اور سانس لینے کے لئے انسان کتنی کوشش کرتا ہے۔ جوانی کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے حسن کو میک اپ کی تہہ میں چھپاتے چھپاتے تھک جاتا ہے لیکن بڑھاپا جھریوں کا تانا بانا بن ہی دیتا ہے۔ چند صبحیں اور چند شامیں گزریں تو بڑھاپے کا جالا بننے سے شباب ماند پڑ جاتا ہے۔ انسان کتنا بھی حسین ہو لیکن بڑھاپا حسن کو کھا جاتا ہے۔ انسان کتنا ہی خوش کیوں نہ ہو، کئی دفعہ ایک ہی غم تمام خوشیوں کو مٹا دیتا ہے۔ مال والوں کا مال چھن جاتا ہے۔ اقتدار والوں کے تخت الٹ جاتے ہیں۔ بہار کو خزاں لے جاتی ہے۔ سورج ڈھلتا ہے تو شامیں صبح کو کھا جاتی ہیں۔ اندھیرا اجالوں کو نگل جاتا ہے۔ اسی طرح ایک دن ہمیں موت اپنی بانہوں میں بھرلےگی اور قبر کی مٹی ہماری ہڈیوں کو چورا چورا کر کے اپنا حصہ بنالے گی۔ پھر ایک دن زمیں کروٹ بدلے گی تو اوپر کا نیچے اور نیچے کا اوپر کردے گی۔ ہماری راکھ کو اللہ تعالی ہوا میں اڑا کر یوں بے نشاں کر دیں گے گویا ہمارا کوئی نشان ہی نہ تھا۔ اور یہی زندگی کی اصل حقیقت ہے۔
انسان ساری عمر زندگی کی حقیقت کی تلاش میں رہتا ہے حالانکہ خواہشوں کے حصول کا پورا نہ ہونا، رات کا دن کو نگل جانا، بڑھاپے کا حسن کو کھا جانا، ایک غم کا تمام خوشیوں کو مٹادینا اور پھر موت کا آجانا ہی حقیقت زندگی ہے۔ یہ دنیا دھوکے کا گھر ہے۔ ہمیں جو نظر آتا ہے وہ حقیقت نہیں۔ ہم خوش ہوتے ہیں کہ بہار آگئی لیکن جلد ہی خزاں بہار کو اپنے شکنجے میں لے لیتی ہے۔ ہم اجالے پہ خوش ہوتے ہیں لیکن اندھیرا جلد ہی چوکھٹ پہ آ بیٹھتا ہے۔ انسان کی پیدائش پہ کان میں اذان دی جاتی ہے اور وفات پہ نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔پیدائش کے وقت نماز نہیں اور مرگ پہ اذان نہیں۔ یہی تو دنیا کی حقیقت ہے کہ ہم اذان سے نماز تک کا مختصر سفر کر چلے۔ ہمیں لگتا ہے کہ کوئی مرتے مرتے بچ گیا لیکن مرتے مرتے کوئی نہیں بچتا بلکہ سب بچتے بچتے مر جاتے ہیں، اور یہ ہے زندگی کی حقیقت۔
خواجہ عزیزالحسن مجذوب رحمہ اللہ علیہ نے زندگی کی حقیقت پہ کیا خوبصورت کلام لکھا ہے کہ
اجل ہی نہ چھوڑا نہ کسری نہ دارا،
اسی سے سکندر سا فاتح بھی ہارا،
ہر ایک لے کے کیا کیا نہ حسرت سے دھارا،
پڑا رہ گیا سب یونہی ٹھاٹھ سارا،
جگا جی لگانے کی دنیا نہیں ہے،
یہ عبرت کی جاہ ہے تماشا نہیں ہے
ملے خاک میں اہل شاں کیسے کیسے،
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے،
زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے،
جگا جی لگانے کی دنیا نہیں ہے،
یہ عبرت کی جاہ ہے تماشا نہیں ہے.
تجھے پہلے بچپن نے برسوں کھلایا،
جوانی نے پھر تجھکو مجنوں بنایا
بڑھاپے نے پھر آ کے کیا کیا ستایا
اجل تیرا کر دیگی بلکل صفایا،
جگا جی لگانے کی دنیا نہیں ہے،
یہ عبرت کی جاہ ہے تماشا نہیں ہے.
یہی تجھ کو دھن ہے رہوں سب سے اعلی،
ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا،
جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا
تجھے حسن ظاہر نے دھوکے میں ڈالا،
جگا جی لگانے کی دنیا نہیں ہے،
یہ عبرت کی جاہ ہے تماشا نہیں ہے.