کالمز

” طلباء تنظیموں کی پستی “



کوئی بھی نظام ، کوئی بھی اصول اور کوئی بھی ایجاد اپنی ہیئت میں نہ تو اچھی ہوتی ہے اور نہ ہی بری ۔ سو انسان اسے کس زاویے سے اپناتا ہے ، کیسے استعمال کرتا ہے اور اس نسخے سے کیا نتائج حاصل کرتا ہے ، یہ قضیے ہی اس کی اچھائی اور برائی پر استدلال کرتے ہیں اور یہ منتج جمالیات کے کئی فلسفوں کا نچوڑ ہے۔ طلباء یونینز پر بی اس استنباط کا مکمل اطلاق ہوتا ہے۔ سو یونہی ایک نئی ہوا آج ریاست کی درسگاہوں میں چل رہی ہے جس میں نفرت اور تعصب کی بو جا بجا محسوس ہوتی ہے۔ اس ہوا کو نام نہاد طلباء تنظیمیں نمو دے رہی ہیں جو کبھی ملک پاکستان میں ترقی ، جہد مسلسل اور جمہور کا تابندہ استعارہ ہوا کرتی تھیں۔ ان طلباء یونینز کو اپنے حقوق کا مکمل ادراک تھا اور جامعات میں بیٹھے سرکاری خداؤں سے یہ فیسوں سے لے کر تمام تر سہولیات تک ہر حق شعوری اور قانونی راستے سے طلب کیا کرتیں تھیں۔ بوسیدہ صفحوں کی دھندلی لکیروں میں طلباء یونینز پاکستان بننے سے لے کر 70 کی دہائی تک نظریاتی اختلاف کے خوبصورت گلدستے تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے کنزرویٹو نظریات کا عکس مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن MSF سے کر کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان CPP کے اشتراکی خیالات کی حامل ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن DSF تک۔ مختلف تنظیموں میں موجود طلباء کا فکری اختلاف ، مثبت مباحث اور شعوری رجحان کو جنم دیتا تھا۔ پھر مگر پھر ملک پر مخصوص سیاسی حلقوں کی اجارہ داری قائم ہوئی تو APMSO اور BSO جیسی تنظیموں میں طلباء نے اپنی نسلی شناخت کا تحفظ ڈھونڈا ۔ ابھی آگ اتنی بڑھکی نہ تھی کہ عزت مآب جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کو افغان جہاد کی آگ میں جھونک کر کو بہ کو شریعت کے نفاذ کی منادی کرادی۔ وہ طلباء جن کے اختلاف اور مباحث کے موضوعات سرمایہ داریت ، جمہوریت ، اشتراکیت اور دیگر سیاسی و سماجی نظریات تھے اب مذہبی اور غیر مذہبی دھڑوں میں تقسیم ہوگئے۔ اسلامی جمیعت طلبا (IJT) ، انجمن طلباء اسلام اور امامیہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن جیسے دستوں کو مسلح کر کے دہشت اور وحشت پھیلائی گئی۔ سیاسی خداؤں کے دست شفقت کے طفیل طلباء کے ہاتھ میں اسلحہ ، کمر پر بلٹ پروف جیکٹ اور ہاسٹلز میں منشیات عام ہونے لگیں۔ تب سے لے کر آج تلک چند مخصوص لسانی اور مذہبی بنیاد پر بنے مسلحہ دستے طلباء یونینز کے نام پر ایک سیاہ داغ بنے ہوئے ہیں ۔ فکر اور فہم سے عاری ان جنونی غنڈوں میں لسانی اور مذہبی تعصب کوٹ کوٹ کر بھرا ہے اور تماشہ گر جب چاہتا انگلی کے اشارے سے انہیں آپس میں تہس نہس کردیتا ہے۔ سرکاری جامعات کا حال یہ ہے کہ اساتذہ سے لے کر کلرک تک رعونت سے دھت ہیں اور یونیورسٹیوں کی انتظامیہ طلباء کو سہولیات دینے کے بجائے ان سے فیسیں بٹورنے ، ٹوٹے پھوٹے ہاسٹلز میں دھکیلنے اور پرچوں میں فیل کرنے کے سوا کوئی کارنامہ انجام نہیں دے رہی۔ طلباء تنظیموں کے مسلح دستے آئے روز کسی سرکاری جامعہ میں دست و گریباں ہوجاتے ہیں ، سینکڑوں مارے جاتے ہیں ، کئی خون خون ہوجاتے ہیں ، گولیوں اور ڈنڈوں کی تڑتڑاہٹ سے ہوائیں گونج جاتی ہیں اور جامعات کی انتظامیہ پولیس کو بلانے کے علاوہ خود کچھ نہیں کرپاتی۔ کسی بھی سرکاری جامعہ کے گیٹ سے غیر متعلقہ افراد بآسانی داخل ہوجاتے ہیں ، ہاسٹلز کے کمروں میں منشیات اور اسلحہ موجود رہتا ہے مگر یونیورسٹی انتظامیہ درج بالا تین کاموں کے سوا کچھ کرنے کی زحمت نہیں کر پاتی ۔ کبھی ڈاؤ یونیورسٹی میں بنی DSF ، طلباء کی بسوں سے کر فیسوں تک تمام مطالبات وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین سے مل کر منوا لیا کرتی تھی مگر آج کیا وقت ہے کہ جامعہ پنجاب سے لے کر جامعہ قائد اعظم تک طلباء لسانی تعصب میں ایک دوسرے کا ہی خون چوستے ہیں اور جو کچھ بچ گیا وہ جامعہ کے اساتذہ کی رعونت کی ملکیت ! ایسے میں ہم سا کوئی بھلا مانس کیونکر طلبا یونینز کی بحالی مانگے ؟ اگر پابندی کے باوجود جہالت اور دہشت کا یہ عالم ہے تو پابندی ہٹ جانے کے بعد کوئی بھی سیکٹر انچارج یا کوئی بھی ناظم جبر اور دہشت کی جو ہولی کھیلیں گے وہ ہم سے نہ دیکھی جاوے گی ۔ رب راکھا!

احتشام الحق باغی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button