بینائی کا سفر
تحریر: روبینہ فیصل (بینا بنتِ آدم)
تیری خوشبو نے مری آنکھ کو بینائی دی
تیرے ہونے نے بتایا کہ نظر آتا ہے
راشد علی مرکھیانی
کڑکتی دھوپ رنگ جھمیلوں میں الجھتی سلگتی، میں زندگی کی حدوں کو پار کر کسی گور کے دہانے کھڑا ہانپتا کانپتا میں مطمئن ہوں نہ آزردہ لیکن ایک ہاتھ ہے جو میری اور بڑھتا ہے اور مجھے پُشت سے پیچھے کو کھینچتا ہے۔ میں ہڑبڑاتا پشت کے بل گرتا ہوں۔
” اے ہے! میں گور میں گر پڑا ہوں کیا؟ “
میں اپنے یوں پشت کے بل گرے وجود کو ٹٹولتے خود کو جائے پناہ، اپنی ہی گور میں محسوس کرنے کی کوشش میں سوال کر رہا ہوں۔
آہ! یہ تو۔۔۔
میں لفظ ادھورے چھوڑے اٹھنے لگتا ہوں۔ کمر کی ہڈی میں درد کی لہر میرے مختل اعصاب کو ٹھکانے پہ لانے لگی ہے۔
”آہ! یہ درد۔۔۔ مجھے اٹھنا ہے۔“
لیکن اٹھنے سے قاصر ہوں۔
مم۔۔۔ مجھے بمشکل دائیں جانب کو کروٹ لے رہا ہوں۔ آہ!
”یہ درد۔۔۔افف۔۔۔“
”مجھے اٹھنا ہے۔۔۔“
میں اٹھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
میں گور کے دہانے پہ کھڑا اپنی نیت بدل چُکا ہوں۔ فی الحال مجھے اس درد سے راحت چاہئے۔
”کوئی طبیب، کچھ دوا ہو۔ آہ! درد۔۔۔“
یہ عالم ِ بے بسی و غربت ایسی کہ میں جاہل مجھے پیچھے کھینچنے والے ہاتھ کا سندیسہ سمجھ چکا ہوں۔
”مگر آہ! یہ تک۔۔۔ تکلیف۔۔۔ ”
مجھے واپسی کی راہ کھوجنی ہے۔
”افف! یہ درد۔۔۔ یہ گور سے باہر بھی کتنا اندھیرا ہے۔“
میری بصارت اک موہوم سی روشنی کو بھی محسوس کرنے سے قاصر لگ رہی ہے۔ کسے پکاروں؟
اگرچہ کوئی نہیں، کچھ نہیں سجھائی دے رہا لیکن میں آواز لگاتا ہوں۔
”کوئی ہے کیا؟
میں۔۔۔ آہ!۔۔۔ م مم میں یہاں۔۔۔ کوئی مدد کو ہے کیا؟ آہ! ”
میں اٹھنے کی کوشش میں بار بار گر رہا ہوں۔ میری کمر کی تکلیف بڑھ رہی ہے۔ میرے قریب ہی تو گور ہے۔ کہیں اسی اندھیر حالت سے ٹکرا کر میں اس میں گر نہ جاوں۔ اففف!
(میں کمر میں درد کی ٹیسوں سے زیادہ گور میں گرنے سے ہلکان ہو رہا ہوں بھلے ہی کچھ لمحے یہ میرے لئے نہایت دلفریب ٹھکانہ بنے اپنی اور پُر فریب صدائیں دے رہی تھی۔مگر اب۔۔۔نہیں،نہیں۔۔۔)
” کوئی ہے کیا؟
بولو! خدا۔۔۔را۔۔ بولو!
مجھے تک۔۔۔ آہ!۔۔۔ میں تکلیف میں ہوں۔۔۔”
میری آنکھیں اپنی بے بسی پر نمی گھولنے لگی ہیں۔
میرا وجود مجھ سے معذرت کرنے لگا ہے۔
لیکن میں۔۔۔
ہاں میں!!!
میں کیا چاہتا ہوں؟
میں اٹھنا چاہتا ہوں
(میں ایک بار پھر سے اٹھنے کی کوشش کرنے لگا ہوں)
”آہ! خدا۔۔۔یا مدد!“
میرا بایاں ہاتھ درد کی اس گھڑی میں کمر کو سہارا دئیے، دائیں کے لئے دعا گو ہے، میرا دایاں ہاتھ۔۔۔
”اوہ!
یہ دایاں ہاتھ کون تھامے ہوئے ہے؟“
”واللہ!
یہ میری آنکھیں۔۔۔“
میری آنکھوں میں تاروں کی ٹمٹماہٹ سرائیت کرنے لگی ہے۔
ہوا کا جھونکا میرے وجود کو چھُونے لگا ہے۔
(مجھے ہوا کا جھونکا میرا ہمدرد محسوس ہو رہا ہے۔)
”ارے سنو! مجھے اٹھنا ہے۔ ”
میرا بایاں ہاتھ دائیں کو چھونے اس کی جانب بڑھنے لگا ہے۔ میری کمر کی تکلیف راحت میں بدلتی محسوس ہو رہی ہے۔
” اے جھونکے! میرے واپسی کی چاہ کرتے وجود سے لپٹے ہوئے، ہوا کے جھونکے!
مجھے آہستہ تھام! یہ مجھ سے چند قدم فاصلے پہ جو گڑا ہے مجھے اس میں گرنا نہیں ہے، مجھے اٹھنا ہے، پھر سے چلنا ہے، ایک کوشش اور کرنی ہے۔ پلٹنا ہے۔ ”
میری آنکھیں ہوا کے جھونکے کے دامن سے آس جوڑے لپٹنے لگی ہیں۔
آہا! یہ جھونکے معطر ہونے لگے ہیں۔ معطر ہو کر اندر سرائیت کرنے لگے ہیں۔ میرا بایاں ہاتھ دائیں سے مل رہا ہے۔ میری کمر کی تکلیف مٹ رہی ہے۔ میں اپنے ہاتھوں کے سہارے آپ اٹھ رہا ہوں۔ سکوں محسوس کرتی میری آنکھیں بند ہیں مگر میں دیکھ سکتا ہوں۔ وہ سامنے روشنی کی لکیر ہے۔ یعنی اندھیرے میں راستہ بن گیا ہے۔
میں نے خوشی سے آنکھیں کھول دی ہیں۔
”ارے واہ! میں پلٹ سکتا ہوں اسی راستے کو چھوتے۔۔۔
آہا! معطر جھونکوں کے صدقے، مجھے نظر آنے لگا ہے۔“
٭٭٭
اللہ فرماتا ہے:
قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَۃِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ
ترجمہ: آپ لوگوں سے کہہ دیجئے: اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ یقیناً سارے ہی گناہ معاف کر دیتا ہے کیونکہ وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔(الزمر: 53)
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالی ہے:
وَالَّذِینَ لَا یَدْعُونَ مَعَ اللَّہِ إِلَہًا آخَرَ وَلَا یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللَّہُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُونَ وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِکَ یَلْقَ أَثَامًا (68) یُضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَیَخْلُدْ فِیہِ مُہَانًا (69) إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَءِکَ یُبَدِّلُ اللَّہُ سَیِّءَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَکَانَ اللَّہُ غَفُورًا رَحِیمًا (70) وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّہُ یَتُوبُ إِلَی اللَّہِ مَتَابًا
ترجمہ: وہ اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نہیں پکارتے نہ ہی اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص ایسے کام کرے گا ان کی سزا پا کے رہے گا۔ قیامت کے دن اس کا عذاب دگنا کر دیا جائے گا اور ذلیل ہو کر اس میں ہمیشہ کے لئے پڑا رہے گا۔ سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے اللہ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے۔ اور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے وہ تو حقیقتاً اللہ تعالی کی طرف سچا رجوع کرتا ہے۔
(الفرقان)
” ایک دل ہے کہ بسایا نہیں جاتا ہم سے
لوگ صحراوں کو گلزار بنا دیتے ہیں ”
محسن نقوی
(ختم شد)