کہانیاں / ناول

دیے کی آس

تحریر: معطر عقیل ، کراچی

زندگی جب اپنے روپ دکھاتی ہو تو سب پاش پاش ہو جاتا ہے ایک امید کی کرن پھر بھی ساتھ رہتی ہے کہ کوئی تو ہوگا جو بجھتے ہوئے دئیے کو ایک ساز اور ترنم کے ساتھ اس کے بلند لہو اور جلتے آنگن کو اپنی چھاؤنی عطا کرے۔کیا ہی خوب ہو کہ زندگی میں کوئی ایسا ہو جو جلتے ہوئے دیے کی تکلیف کو محسوس کرسکئے۔ اس روشنی کی کرن کا دوسرا اور گہرا رخ دیکھ سکے۔ہاۓ ایک دیا کتنا گہرا ہورہا ہے خاک اور راکھ کی منزلیں طے کرتا ہوا اندھیروں سے اکیلا ہی جنگ لڑی رہا ہے ۔ایسے میں اس دیے کے پاس کوئی وسائل تو ہوں جو اس کو بجھنے نہ دے لیکن شاید دیے کے سلگتے اور پھڑکتے ہوئے وہ مضبوط شعلے کسی کو اس طرف متوجہ کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ جب دیا جلتا ہے تو چاروں سمت روشنیاں جگمگاتی ہوئی نظر آتی ہیں اور سب ایک فریب میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ روشنی آنگن میں پھیل گئی ہے جب کہ جلتے ہوئے دئیے کی وہ آگ ٹھندی پڑ رہی ہے اب بھی وقت ہے اے دیوں سے روشنی حاصل کرنے والوں کبھی تو اس دئیے کو وقت دیکر دیکھو زندگی میں اندھیرابھی کسی کی ٹھندی اور سلگتی آنچل کو ایک بار پھر گرماہٹ پہنچانے میں مدد دئے سکتا ہے.آؤ اس دئیے کو اس آنچل میں بسا کر اس کی لو کی حفاظت کرتے ہیں تاکہ اس دیے کی روشنی مانند نہ پڑ جائے۔روشنیوں سے اندھیروں کا سفر بھی ایک خوبصورت یاد بن جاتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button