کالمز

مقبوضہ کشمیر اور سب سے بڑی جمہوریت

"مقبوضہ کشمیر اور سب سے بڑی جمہوریت”

فضہ شہزاد، ساہیوال



یاران جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت! اور جنت ہونے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر دنیا کا وہ علاقہ ہے جہاں سب سے زیادہ فوج تعینات ہے۔ کشمیر پر تعینات فوج کی تعداد تقریباً سات لاکھ ہے جبکہ پاکستانی فوج کی کل تعداد سات لاکھ پچاس ہزار ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی کل آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے۔ شاید ہی کشمیر کا کوئی گلی یا کوچہ ایسا ہو جہاں کوئی فوجی موجود نہ ہو اور شاید کبھی جنت میں فوج تعینات ہو۔
کشمیر کا سینتالیس فیصد حصہ بھارت کے پاس ہے جسے مقبوضہ کشمیر کہتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی تقریباً اسی فیصد آبادی مسلمان ہے۔ تقسیم کے وقت چونکہ کشمیر ایک مسلم اکثریتی علاقہ تھا اس وجہ سے وہاں کی عوام پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی تھی لیکن کشمیر کا راجہ ہری سنگھ ہندو تھا اور وہ ہندوستان کے ساتھ الحاق چاہتا تھا اسی لیے راجہ نے وقتی طور پر ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے رہنے کا فیصلہ کیا۔ چونکہ کشمیر ایک مسلم اکثریتی علاقہ تھا اس لیے وہاں کی عوام نے حکومت کے خلاف بغاوت کر دی جب صورتحال راجہ کے کنٹرول سے باہر ہوئی تو وہ مدد مانگنے نہرو کے پاس چلا گیا اور بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں اور تب سے شروع ہونے والی جنگ آج پچھتر سال گزرنے کے بعد بھی جاری جو کشمیر جیسی جنت نظیر وادی کے حسن کو مسلسل داغ دار کر رہی ہے
مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں اور ابھی بھی بھارت پر جنگی جنون سوار ہے پہلی جنگ 1947 میں ہوئی جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 1948میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کروائی اور قرار داد منظور کی کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیر کی عوام کی مرضی سے حل ہو گا اور اس کے لئے کشمیر میں ریفرنڈم کروایا جائے۔ اس کے بعد 1965 کی جنگ اور پھر 1999 میں کارگل ہوا مگر نہ تو کشمیر میں ریفرنڈم ہوا اور نہ مسئلہ کشمیر حل ہوا۔
کشمیر میں ریفرنڈم کے بھارت خلاف ہے کیونکہ بھارت جانتا ہے کہ اگر رائے شماری ہوئی تو کشمیری عوام پاکستان سے الحاق کریں گے۔ بھارت کا ایک وزیر دفاع کرشن مینن خود بیان دے چکا ہے کہ:
"کشمیری پاکستان کے حق میں فیصلہ کریں گے اور جو بھارتی حکومت ریفرنڈم کروائے گی یا اسکی حمایت کرے گی وہ قائم نہیں رہ سکے گی”
بھارت میں الیکشن جیتنے کے لئے کشمیر کارڈ استعمال کیا جاتا ہے اور عوام کے جذبات کو ابھارا جاتا ہے
بھارت 1947 سے آج تک کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ میڈیا کی زبان بندی، لوگوں کا قتل عام، خواتین پر تشدد کرنا اور انہیں جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنانے جیسے سنگین جرائم بھارت کشمیر پر ڈھا رہا ہے۔
اور ان جرائم میں مزید اضافہ 5 اگست 2019 کو ہوا جب بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35A کو ختم کیا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی سنگین خلاف ورزی کی۔
آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کو یہ حق حاصل تھا کہ اسکا اپنا قانون ، اپنا پرچم، اپنی اندرونی انتظامیہ اور کشمیر کی ایک مخصوص حیثیت ہو۔
اس کے ساتھ 35A کے تحت کشمیری حکومت کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ اس بات کا فیصلہ کریں کہ کشمیر کے مستقل شہری کون ہیں اور جو کوئی بھی کشمیر کا مستقل رہائشی نہیں وہ نہ تو کوئی جائیداد خرید سکتا ہے نہ تعلیم حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی نوکری حاصل کر سکتا ہے۔ بھارت نے ان دونوں قوانین کو ختم کر کے کشمیر کی مخصوص حیثیت کو ختم کر دیا اور مزید فوج کشمیر میں اتار دی ۔
5اگست 2019 کے بعد سے کشمیر میں بھارت نے ظلم وستم کی انتہا کر دی اور میڈیا پر شدید پابندیاں لگا دیں تا کہ دنیا بھارت کا مکروہ چہرہ نہ دیکھ سکے۔ CPJ نیویارک کا کہنا ہے کہ اگرچہ بھارت نے G20 کا اجلاس سری نگر میں کروا کر دنیا کو سب اچھا ہے دکھانے کی کوشش کی ہے لیکن کشمیر میں آزادئ صحافت ابھی بھی خطرے میں ہے اور اسکے ساتھ ساتھ CPJ نے آصف سلطان، فہد شاہ، سجاد گل اور عرفان مہراج سمیت چاروں صحافیوں کو فوراً رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیرس کی ایک صحافتی تنظیم "Reporters Without Borders” نے پریس فریڈم انڈیکس میں بھارت کو 180 ممالک کی فہرست میں 161 نمبر پر رکھا ہے۔ ان سب کے باوجود بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سمجھتا ہے۔ کیا آپ کسی ایسی جمہوریت کو جانتے ہیں جس میں میڈیا پر قدغنیں ہوں اور وہ شدید انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مرتکب ہو؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button