رمضان المبارک اور بجلی کی لوڈشیڈنگ: حکومتی دعوے یا حقیقت؟


تحریر: انجینئر عثمان بشیر
رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ رحمت، برکت اور مغفرت کا پیام لے کر آتا ہے، مگر اس مقدس مہینے میں عوام کو درپیش مشکلات میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ایک سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ سحری و افطار کے لمحات، جو عبادات، دعا اور برکتوں کے حصول کا وقت ہوتے ہیں، بجلی کی غیر اعلانیہ بندش کی وجہ سے اذیت میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے رمضان المبارک کے دوران بجلی کی لوڈشیڈنگ پر مکمل پابندی کے احکامات جاری کیے تھے، لیکن عملی طور پر یہ احکامات بے اثر دکھائی دیتے ہیں۔ ملک کے کئی علاقوں میں سحری اور افطاری کے وقت بجلی کی بندش معمول بن چکی ہے، جس نے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
یہ امر نہایت تشویشناک ہے کہ موجودہ حکومت، جو اپنی کارکردگی کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے کرتی ہے، وہیں توانائی کے شعبے میں مکمل ناکام نظر آتی ہے۔ سحری اور افطاری کے دوران بجلی کی معطلی نہ صرف گھریلو صارفین کے لیے پریشانی کا باعث بن رہی ہے بلکہ مساجد میں نمازِ فجر اور تراویح کے دوران بھی نمازیوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حکومت کی دیگر وزارتیں اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھا رہی ہیں تو پھر توانائی کا شعبہ کیوں ناکام دکھائی دیتا ہے؟ کیا یہ وسائل کی کمی کا مسئلہ ہے یا پھر متعلقہ اداروں کی ناقص حکمتِ عملی؟
پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے توانائی کے بحران کا شکار رہا ہے، لیکن رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے میں ہمیشہ کچھ خصوصی انتظامات کیے جاتے رہے ہیں تاکہ کم از کم سحر و افطار کے وقت بجلی کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ مگر اس سال ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کے بجائے اسے مزید بڑھا دیا گیا ہے۔ عوامی سطح پر ہونے والے احتجاج اور سوشل میڈیا پر شدید تنقید کے باوجود بجلی کے متعلقہ ادارے حکومتی احکامات پر عمل درآمد میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔
یہ مسئلہ کسی ایک علاقے تک محدود نہیں بلکہ پورے ملک میں عوام اسی تکلیف سے دوچار ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق اس کی ایک وجہ توانائی کے شعبے میں فنڈز کی عدم دستیابی ہو سکتی ہے، جس کی وجہ سے بجلی کی پیداوار اور ترسیل میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر ایسا ہے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اس مسئلے کو حل کرے کیونکہ لوڈشیڈنگ کسی بھی حکومت کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے اور یہ براہِ راست عوام کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔
دوسری جانب، اگر یہ معاملہ حکومتی نااہلی اور ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے تو پھر یہ اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہے۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے مستقل اور پائیدار حکمتِ عملی کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف رمضان بلکہ سال بھر عوام کو اس مشکل سے نجات دلائی جا سکے۔ بجلی کی پیداوار کے متبادل ذرائع، بہتر ترسیلی نظام اور شفاف انتظامی پالیسیوں کے بغیر اس مسئلے کا کوئی مستقل حل ممکن نہیں۔
حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ فوری اقدامات کرے اور رمضان کے مقدس مہینے میں کم از کم سحر و افطار کے اوقات میں بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پائے۔ عوام پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں، ایسے میں بجلی کی بندش ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ توانائی کے اداروں سے فوری مذاکرات کرے اور ان وجوہات کا سدباب کرے جو رمضان المبارک میں بھی بجلی کی معطلی کا باعث بن رہی ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف عوامی مشکلات کو کم کریں گے بلکہ حکومت کی ساکھ کو بھی بہتر بنانے میں مدد دیں گے۔ اگر بروقت کارروائی نہ کی گئی تو عوامی غصہ مزید بڑھ سکتا ہے اور حکومت کے لیے یہ ایک نیا بحران بن سکتا ہے۔