خاموشی ، ضابطہ اور قلم کا فرض

تحریر:سیدہ نزہت ایوب کاظمی ، شہر:اسلام آباد

میں آج اپنے محترم قاری کی خدمت میں خاص کالم لے کر حاضر ہوئی ہوں۔
مگر کالم کی طرف بڑھنے سے پہلے اپنے قاری کے ساتھ کچھ دل کی باتیں،
یہ آج سے 17 سال پہلے کی بات ہے جب میں پہلی بار اپنے گاؤں سے نہایت قابل احترام “محترم خالد شریف صاحب ” کو ملنے کے لیے لاہور گئی۔ مجھے سر سے اپنی تحریروں کی نوک پلک سنوارنے کے لیے رہنمائی چاہیے تھی۔
میں محترم کے علمی سفر سے کچھ نایاب علم کے موتی اپنی جھولی میں بھرنا چاہتی تھی۔
آپ نے بہت سی علمی باتوں سے نوازا۔
میری تحریروں پر اپنی قیمتی آراء بھی دیں۔
اور کہا آپ فیس بک بنائیے۔
میں نے پہلی بار فیس بک کا ذکر آپ ہی کی زبان سے سنا تھا ۔ حیران ہوئی کہ سر یہ فیس بک کیا ہوتی ہے۔آپ نے تفصیل بتائی۔
میں نے آپ سے کہا ، اس کے لئے تو مجھے کمپیوٹر کورس کرنا پڑے گا۔انہوں نے کہا ہاں بالکل کورس تو کرنا پڑے گا۔
لاہور واپسی پر میں ایک نیا عزم دل میں بسا چکی تھی،گو کے یہ مشکل تھا مگر ناممکن نہیں تھا۔ناممکن اس لئے نہیں تھا کہ اب ہمارے گاؤں میں بھی ایک پرائیویٹ کمپیوٹر اکیڈمی کھل چکی تھی،اور مشکل اس لیے تھا ، کمپیوٹر سکھانے والے ایک مرد استاد تھے۔
اور جس بندی نے اپنی پڑھائی کا آغاز جیون ساتھی سے چوری ، پورے خاندان کی مخالفت مول لے کر کیا ہو،حتی کہ ابو جی کی بھی ، جنہوں نے اپنے بھائی کی بہو بناتے وقت وعدہ کیا تھا کہ بیٹا شادی کے بعد تم جتنا چاہے تعلیم حاصل کر لینا۔۔۔۔۔۔
سو کمپیوٹر اکیڈمی میں داخلہ لینا ، اس کے لئے کسی پہاڑ کو سر کرنے کے مترادف تھا۔۔۔۔۔
میرے محترم قاری کمپیوٹر میں داخلے کی داستان کو چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔۔۔۔
بےشک آپ نے میری مکمل رہنمائی فرمائی۔ میرا یہ ایمان ہے، ربِ یکتا سیکھنے والوں کو بہترین راہوں سے نوازتا ہے اور اس نے مجھے بھی نوازا۔۔۔۔
یہاں محترم خالد شریف کے بارے میں کچھ بیان کرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔ایک لکھاری ہونے کی حیثیت سے یہ ان کا حق ہے ، ان کی محبت میں دو بول کہے جائیں۔
میں ساتویں جماعت کی طالبہ تھی جب پہلی بار آپ کا نام اپنے ابوجی کی زبان سے سنا۔۔۔۔۔۔ابو جی کے خوشی کا عالم عجیب تھا۔یعنی ابو جی کے چہرے پر ایک ہی وقت میں جوش ،حیرانگی اور سرشاری کا حسین امتزاج تھا۔
کسی ضروری کام کے سلسلے میں ابو جی لاہور گئے ہوئے تھے۔ ہمارے گاؤں کو آنے والی ریل گاڑی اپنے مقررہ وقت سے کچھ دیر سے ریلوے اسٹیشن پہنچ رہی تھی۔ابو جی نے موقع غنیمت جانا اور مطالعے کی غرض سے کچھ کتابیں خریدنے اردو بازار پہنچے۔
اتفاق سے سب سے پہلے ہاتھوں نے جس کتاب کو چھوا وہ ایک شعر و شاعری پر مبنی کتاب تھی۔ابو جی نے شاعر کا نام دیکھا تو چونکے “خالد شریف”
سب سے پہلا سوال ذہن نے کیا، “کیا خالد شریف شاعر بن گیا؟،انکم ٹیکس کی نوکری چھوڑ کر شاعری اور کتابیں پبلش کرنے لگے ؟”
ساتھ ہی ایک خوبصورت سی مسکراہٹ ابو جی کے لبوں کو چھو گئی۔۔۔۔کچھ پرانی یادیں آنکھوں کے سامنے آویزاں ہوئیں،بظاہر تو ابو جی شاعر “خالد شریف” کی کتاب کے اوراق پلٹ رہے تھے مگر نگاہیں بہت دور فیصل آباد شہر کی سڑکوں پر دوڑتی ہوئی ایک موٹر سائیکل پر جمی تھیں،جس پر انکم ٹیکس کے دو ملازم ساتھی نہایت عجلت میں انکم ٹیکس کے دفتر سے نکلے تھے ٹیکسز کے حوالے ہی سے ایک ضروری کام کے سلسلے میں انہیں کہیں پہنچنا تھا۔ابھی موٹر سائیکل سوار رستے میں تھے کہ انہیں مقابلے کے مشاعرے کا بینر لگا نظر آیا،موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھے نوجوان نے کہا کہ دوست کیوں نہ ہم پہلے اس مشاعرے کا جائزہ لیں ۔دوسرے نے یاد دلایا کہ سر ہم بہت ضروری کام کے سلسلے میں جا رہے ہیں۔۔۔پہلے نے کہا کہ جائزہ ہی تو لینا ہے۔مشاعرے میں ملک کے نامور شعراء حصہ لے رہے تھے۔اسی جوان نے کہا کہ ہم اک دو شاعروں کو سن لیں،ساتھ ہی مشاعرے کے میزبان کو اپنا نام لکھ کر دے دیا کہ میں بھی اپنے چند اشعار پڑھنا چاہتا ہوں۔اس جوان نے اپنی باری پر اپنے کہے شعر پڑھے جو اس نے اسی وقت لکھے تھے،دوسرا جوان اپنے ساتھی کی قابلیت کی وجہ سے اس کا قدر دان تو تھا ہی،تعظیم بھی بہت کرتا (کہ انکم ٹیکس میں پہلا جوان دوسرے کا افسر بھی تھا)مگر یہ راز اس پر آج کھل رہا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں جوان کچھ دیر کے لئے بھول گئے کہ وہ ضروری کام نپٹانے دفتر سے نکلے تھے۔
مشاعرے کے نتیجے کا کچھ زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا، یعنی پہلے جوان کا ساتھی یہ مشاعرے کا مقابلہ جیت چکا تھا۔اسی وقت اس جوان نے اپنے ساتھی کو ملک کا بڑا شاعر تسلیم کر لیا تھا۔۔۔۔۔
یہ دونوں جوان انکم ٹیکس کے دفتر میں نئے آئے تھے،ایک کلرک کے عہدے پر اور دوسرا افسر ، حساب کتاب کے معاملے میں دونوں ہی انتہائی سمجھدار تھے ۔انکم ٹیکس کے گوشواروں کے سلسلے میں دونوں کی جوڑی خوب رنگ جماتی۔ دونوں کی ذہنی ہم آہنگی ہر کیس کو اپنے منطقی انجام تک کامیابی سے پہنچاتی۔
دونوں جوان فیصل آباد سے صنعتی شہر کے آسمان پر تسلسل سے جانے کب تک اڑان بھرتے کہ وقت نے پلٹا کھایا اور ایک جوان حادثاتی طور پر انکم ٹیکس کی نوکری چھوڑ کر ذریعہ معاش کی تلاش میں ولایت جا بسا۔۔۔۔۔۔۔ابو جی نے سوچوں کے گھوڑوں کی لگامیں کھینچی اور مسکراتے ہوئے کتاب خریدی۔
ابو جی نے ریلوے اسٹیشن جانے کی بجائے ماورہ پبلشر کا رخ کیا جس کا پتہ انہوں نے اسی کتاب سے لیا تھا۔
اس کتاب کے شاعر خالد شریف اور اپنے پسندیدہ افسر ساتھی سے ملاقات کو۔۔۔۔۔رستے میں ایک ہی سوال ستاتا رہا کہ آخر “خالد شریف” نے انکم ٹیکس کی نوکری کیوں چھوڑی۔ابو جی بہت خوش تھے کہ وہ جوانی کے بچھڑے ساتھی افسر کو ملنے جا رہے ہیں جو اب ملک کا نامور شاعر بھی ہے۔
ماورہ کے دفتر پہنچنے پر انہیں پتہ چلا کہ خالد شریف تو شہر سے باہر ہیں ان کی واپسی دو دن کے بعد ہے۔
ابو جی نے ایک کاغذ پر اپنے دوست کے لئے کچھ لکھا اور واپس آگئے۔
پھر ابو جی جب تک زندہ رہے انہیں معاملات زندگی نے دوبارہ ماورہ کے دفتر جانے کی مہلت نہ دی کہ اپنے بچھڑے ساتھی سے مل سکتے۔
ہاں مگر اپنے ساتھی کی وہ کتاب جو انہوں نے لاہور کی بک سٹال سے خریدی تھی اکثر پڑھا کرتے۔ہمیں پتہ ہوتا کہ ابو جی کو یہ کتاب بہت عزیز ہے۔ اس کتاب نے ابو جی کی زندگی میں اپنا مقام نہیں بدلا تھا۔
دارِ فانی سے کوچ کرنے سے چند ماہ پہلے ابو جی نے وہ کتاب مجھے تحفے میں دے دی۔ابو جی کی خوبصورت یادوں کے ساتھ جڑی وہ کتاب تاحال میرے پاس موجود ہے۔
اب آتے ہیں اپنی آج کی خاص بات کی طرف،اے میرے محترم قاری میں جس پاک گھرانے کی آل میں سے ہوں میں نے اس پاک گھرانے کے افکار و نظریات سے ایک بات سیکھی اور سیکھ رہی ہوں،معاشرہ چاہے کوئی بھی ہو اپنی ذات کو انتشار کا سبب مت بننے دو۔شدت اختیار نہ کرو اور اپنے دماغ میں غصے کو پنپنے مت دو۔بات چاہے دینی ہو یا دنیاوی، ہر ایک کی سنو،پھر قرآن و سنت کی روشنی میں اسے پرکھو ۔
اس کے بعد معصومین علیہ السلام کے درس کی روشنی سے نتائج اخذ کرتے ہوئے اپنے رستوں کا تعین کرو۔
اس سب میں نگہ صرف رب کی رضا پر رہے۔
محترم قاری!
میں نے قلم “مولا علیؑ” کے در سے اُٹھایا ہے۔
وہ در، جہاں سچ بولنا عبادت ہے، اور خاموش رہنا بھی حکمت۔
میں نے سیکھا کہ حق لکھنے والا کبھی تنہا نہیں ہوتا۔
کیونکہ جب لفظ عدل کی قسم کھا کر نکلتے ہیں، تو اُن کے محافظ خود علیؑ کی روحِ تطہیر بن جاتی ہے۔
میں بغاوت نہیں کرتی، میں وہ سچ لکھتی ہوں جو جھوٹ کی دیواروں میں دراڑ ڈال دیتا ہے۔
میرا قلم کسی کے خلاف نہیں لکھتا ، مگر ہر اُس سوچ کے خلاف ضرور ہے جو ظلم کو جواز دیتی ہے۔”
“میں غصے میں نہیں، غیرت میں لکھتی ہوں۔
میں نے ظلم سہا ہے، اس کی چپ سنی ہے، اس کی دھوپ میں جلی ہوں۔
اور اس کی بربریت میں پلی بڑھی ہوں ۔
میرے لفظ انتقام نہیں، بیداری ہیں۔
میں آگ نہیں لگاتی، مگر سچ کی روشنی کبھی کبھار اندھوں کو جلا دیتی ہے۔
میں “مولا علیؑ”کے در کی کنیز ہوں،
اس در سے نکلنے والا لفظ صرف انصاف کا ہوتا ہے۔
اور انصاف ہمیشہ تلوار کی طرح چمکتا ہے، چاہے نگاہیں چندھیا جائیں۔”
میں موضوعات پر بحث و تکرار نہیں کرتی کیونکہ بحث و تکرار سے مہذب گفتگو مر جاتی ہے،
اور جنم لیتے ہیں فساد، فتنے، لڑائیاں، نازیبا الفاظ اور بدتمیزیاں۔
میرا معاشرہ پہلے ہی بدنمائی کا شکار ہے،
لہٰذا مجھے صبر کے ساتھ حالات و واقعات کو دیکھنا، پرکھنا، سمجھنا اور اس پر سوچنا ہے۔
اور اسی بات کی دعوت مجھے ہر باادب قاری کو دینا ہے۔
“میں جانتی ہوں اندھیرا دیرپا نہیں ہوتا،
سچ کے چراغ کو کوئی طوفان بجھا نہیں سکتا۔
میں نے “مولا علیؑ” کی حیات سے یہی سیکھا ہے کہ
“صبر کمزوری نہیں، یہ ایمان کی تلوار ہے ۔
جو وقت کے ظلم کو کاٹتی ہے اور حق کی راہ ہموار کرتی ہے۔”
میں لکھتی رہوں گی، کیونکہ میرے قلم کا رُخ روشنی کی طرف ہے،
اور روشنی ہمیشہ لوٹتی ہے، چاہے رات کتنی ہی گہری کیوں نہ ہو۔
میرا قاری ضرور سوچتا ہوگا کہ آج میں نے اس قسم کا کالم کیوں ان کی خدمت میں پیش کیا۔
تو یہ میرے قاری کا حق ہے۔میرے قاری کو پوچھنا چاہیے ، مجھ سے سوال کرنا چاہیے۔
میرا یہ فرض بنتا ہے اپنے قاری کے ہر سوال کا تسلی بخش جواب دوں ،اور جواب بھی ایسا جو قرآن و سنت اور معصومین علیہ السلام کی تعلیمات کی روشنی کے عین مطابق ہو۔
بہت سے احباب میرے تبصروں پر نقطہ چینی کرتے ہوئے بات کو بحث و تکرار تک لے جاتے ہیں۔
ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مجھے کسی خاص گروہ سے جوڑ سکیں،مگر انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے پھر بھی وہ ہمت نہیں ہارتے ۔
مجھے اپنے والدِ بزرگوار سے وطن سے محبت اور اپنے محافظوں کی قدر کرنا ہی سکھایا گیا۔
اے میرے محترم قاری پاکستانی ہونے کی حیثیت سے میرا فرض ہے ، میں اپنے ملک کے قوانین کا احترام کروں ، حکومتی نظام اور دفاہی نظام سنبھالنے والوں کی عزت کروں۔
اپنے قاری سے اجازت چاہنے سے پہلے ایک دعا،
اے ربِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم !
فتنوں کا دور ہے ، ہر شر پر زور ہے۔اندھیر نگری ہے ، سر پہ مصیبتوں کی گٹھڑی ہے۔
‘مردہ’ دلوں کے ارمان ہیں،مر رہی زمیں ، جل رہے آسمان ہیں۔کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا،فساد ہے کچھ یوں برپا کہ حق دکھائی نہیں دیتا۔
اے مالکِ کلِ مختار! عرض کرتی ہے ایک گنہگار،
صدقہء پنجتن پاک کے اس شر کے حصار کو توڑ،ڈگر ہو چاہے کوئی ہمیں تنہا مت چھوڑ۔۔۔۔
آمین ثم آمین