کالمز

قرآن ایک حقیقت





تحریر: مبشرہ انمول عطاریہ
عید کے دن سویڈن میں جو کچھ ہوا، یہ پہلا یا آخری واقعہ نہیں ہے۔ جب سے دنیا قائم ہے اور جب تک یہ قائم رہے گی، حق کے مقابل ایسے اذیت ناک واقعات ہوتے رہیں گے۔ روز اول سے کسی نہ کسی انداز میں قرآن کو ہدف تنقید بنایا جاتا رہا ہے۔ ہر دور میں تنقید اور تزہیک کے طور طریقے بدلتے رہتے ہیں۔ تصورات اور افکار پر پہلا حملہ دلیل کا ہوتا ہے، دوسرا حملہ تصور پیش کرنے والی شخصیت پر ہوتا ہے اور تیسرا اور آخری حملہ طعن تشنیع اور پھاڑنے اور جلانے کا ہوتا ہے۔
قرآن دنیا کی واحد آسمانی کتاب ہے، جو کائنات کے خالق اور مالک کی طرف سے نازل کردہ اپنی اصل صورت میں موجود ہے۔ سابقہ قوموں نے اپنی کتب کو من گھڑت ترامیم کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق بدل ڈالا اور پھر وہ افادیت کھو کر خود انہی کے درمیان منتازعہ ہو گئیں۔ یہ میشیت ایزدی تھی کہ اللہ کی طرف سے انسانوں کے لیے آخری پیغام اس انتظام اور اہتمام سے بھیجا گیا کہ رہتی دنیا تک اس کے حرف، حرف کے قائم رہنے کی ضمانت بھی دی گئی۔ ساری دنیا کے مشرکین ہر دور میں قرآن میں تحریف کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور اس تجسس میں بھی رہے کہ قرآن میں کوئی نقص تلاش کرلیں لیکن ہمیشہ ناکام ہی رہے۔
قرآن اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے، جو رہتی دنیا تک اپنی اصل حالت میں قائم رہے گا۔ یہ کتاب چونکہ خالقِ کائنات کی نازل کردہ ہے، اس لیے اس کے مقابل کتاب کیا ایک آیت (فقرہ) بھی تخلیق نہیں کی جاسکی۔ یہ کتاب ہدایت ہے جو انسانوں کے درمیان معاملات زندگی کو عدل پر قائم رکھنے کی ضامن ہے۔ دنیا میں جو بھی دوسرے کے حق پر ڈاکہ ڈالنا چاہتا ہے وہ اپنی طاقت سے اسے برحق قرار دلوانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔قرآن ایک دائمی لائحہ عمل ہے، جو ہر ظالم بھلے وہ مسلمان ہو یا کافر کا راستہ روکتا ہے۔ قرآن کی یہ حقانیت ظالموں کو ہضم نہیں ہوتی۔ مسلمان حکمران اسے اپنے ہاں نافذ نہیں ہونے دیتے اور غیر مسلم ظالم اس کے وجود کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
قرآن ایک ایسی حقیقت ہے جب وہ اللہ کی اجازت سے اٹھ جائے گی تو کائنات کا وجود قائم رہنا باقی نہیں رہے گا۔ قرب قیامت میں جب قرآن کے الفاظ بحکم الہی خود بخود اوراق سے غائب ہوجائیں گے تو یہ کائنات کے خاتمے کا اعلان ہو گا۔ اس لیے سویڈن کے چند جنونی کیا، ساری دنیا کے مشرکین بھی جمع ہو جائیں تو وہ قرآن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اس لیے قرآن کی بے حُرمتی پر غم و غصے کا اظہار تو انسانی فطرت ہے۔ آزادی اظہار، آزادی رائے اور آزادی فکر و خیال کے علمبردار یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمان قرآن کے ایک، ایک حرف کو اپنی زندگی کی عزیز ترین متاع سمجھتے ہیں بلکہ اپنی زندگی سے عزیز تر خیال کرتے ہیں۔ جو معاشرہ رائے کے احترام کا دعویدار ہے، وہاں قرآن کی بے حُرمتی نہ صرف ان کے اپنے دعوے کی قلعی کھول دیتی ہے بلکہ مغرب کی منافقت اور دوغلے پن کو بھی آشکار کرتی ہے۔
قرآن کتاب عدل ہے، جب ظالموں کو اس کے مقابل کوئی دلیل نظر نہیں آتی اور وہ کسی بھی طور قرآن کو دنیا سے مٹا نہیں سکتے تو اپنے مظالم کی دلالت میں وہ قرآن کریم کو جلانے جیسے گھٹیا اقدامات پر مجبور ہوتے ہیں۔ جس تصور کے خلاف آپ کے پاس دلیل نہ ہو تو آپ اس تصور کے داعی کی کمزوریاں تلاش کریں گے، جب ان کا کام نہیں چلے گا تو پھر گالی گلوچ اور گھیراو، پتھراو اور تشدد آمیر ذرائع سے اپنا غصہ نکالنے کی کوشش کی جائے گی۔
اہل مغرب سے تو ہمارا یہی شکوہ ہے کہ آپ رائے کے احترام، آزادی خیال و اظہار کے حامی ہیں تو اپنی آزادی دوسرے کی رائے پر ڈھونسنے کی بونڈی حرکت کرکے اپنے دعوے کی نفی کیوں کرتے ہیں۔ جو لوگ حق کو نہ پہچان سکیں، ان سے اس سے بڑھ کر کوئی شکوہ بنتا ہی نہیں۔ یہ اپنے ہی جلائے ہوئے شعلوں کی آگ میں جھلس رہے ہیں۔ انہیں اس آگ میں دھکیلنے کے بجائے قرآنی تعلیمات کے مطابق ” برائی کو بھلائی سے ختم کریں ” انہیں خیر کی طرف آنے کی دعوت دینے کی ضرورت ہے۔ جو حق کو جاننے اور پہچاننے کے باوجود لڑنے، مرنے اور مارنے پر بضد ہو، اس کے خلاف ہتھیار اٹھانا تو جائز ہے لیکن جن کو حق کا علم ہی نہیں۔ جن تک پیغام حق پہنچ ہی نہیں پایا، ان بیچاروں سے نہ شکوہ بنتا ہے، نہ شکایت اور نہ ان کے خلاف صف آرائی کی ضرورت ہے۔ یہ سارے لوگ جاہل مطلق ہیں، کائنات میں پھیلی ہوئی کروڑوں شہادتوں کے باوجود انہیں اپنے خالق اور مالک کی پہچان نہیں ہورہی۔ یہ جہالت کی اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ ان کے ہاں ماں، باپ، بہن، بھائی، دوست، رشتہ دار، استاد، پیغمبر اور خدا کے مقام، مرتبے اور احترام کا کوئی وجود نہیں رہا۔ ان کے جاننے اور پرکھنے کے تصورات ہی بدل چکے ہیں۔ مادیت، خود پسندی اور خود پرستی کے تہہ در تہہ جالوں میں جکڑے اس معاشرے کو خدا کے آفاقی پیغام سے روشناس کرنے کے لیے جدید اسلوب اور طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔( ماخوذ سوشل میڈیا)



Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button