کالمز

موجودہ بجٹ کے پاکستانی عوام پر اثرات



تحریر: اعجازعلی ساغر اسلام آباد

Twitter: @IjazASaghar


ابھی موبائل اٹھایا تو ایک دوست کی پوسٹ نظروں سے گزری کہ ظالموں نے قبروں پر بھی ٹیکس لگادیا ہے ھوسکتا ہے ان کی اس پوسٹ میں صداقت نہ ھو لیکن بھائی یہ پاکستان ہے یہاں رات کو سوئیں گے تو حالات اور گے صبح اٹھیں گے تو سب کچھ بدلا نظر آئے گا اس ملک میں ایک لمحے کا پتہ نہیں چلتا کہ کب کیا ھوجائے۔
پچھلے مہینے 188 کھرب 87 ارب سے زائد بجٹ پیش گیا ویسے تو ہر سال ہی بجٹ پیش ھوتا ہے اور عام پاکستانی کو بجٹ سے کافی توقعات ھوتی ہیں کہ اس بجٹ میں ان کیلئے ریلیف ھوگا,ٹیکسیز کم ھوں گے مہنگائی میں کمی آئے گی روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں گے الغرض بجٹ ہر امیر غریب کیلئے ایک امید کی کرن ھوتا ہے۔
پچھلے کچھ سالوں سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک معاشی طور پر کافی کمزور ھوچکا ہے ویسے تو ھمارے گزشتہ کئی بجٹ خسارے میں گئے ہیں یعنی آمدنی اٹھنی خرچہ روپیہ, اور حکمرانوں نے بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کیلئے عوام پر ٹیکسیز لگاکر اپنے اخراجات پورے کیے ہیں اور عوام ٹیکسوں کی چکی میں پستی رہی ہے لیکن بجٹ 2024-25 کے ٹیکس نے اعداد و شمار اور گنتی کے ماہرین کو بھی چکرا کر رکھ دیا ہے۔
پی ڈی ایم حکومت کے پچھلے 16 ماہ میں مہنگائی اور بیروزگاری نے عام آدمی سے جینے کی آس چھین لی تھی وہ لوگ جو عمران خان کی حکومت کے ستائے ھوئے تھے انہوں نے سکھ کا سانس لیا کہ چلو شکر ہے اب آسانیاں ملیں گی مگر عمران کے دور میں 16 فیصد مہنگائی پر واویلہ کرنیوالوں نے 53 فیصد مہنگائی کو برداشت کیا پھر پی ڈی ایم حکومت کے خاتمے کی دعائیں کیجانے لگیں کہ ﷲ کرے یہ عذاب ختم ھو,پی ڈی ایم حکومت کے بعد تین ماہ کیلئے لولی لنگڑی نگران حکومت آئی تاکہ فری اینڈ فئیر الیکشن کروائے جاسکیں لیکن تین مہینے کیلئے آنیوالی نگران حکومت نے آٹھ نو ماہ ٹپا دیے اور عام پاکستانی جو پی ڈی ایم حکومت کا ستایا تھا وہ اس نگران حکومت سے نجات مانگنے لگا,ﷲ ﷲ کرکے 9 فروری کو الیکشن ھوئے کس کا مینڈیٹ تھا اور کس نے لیا یہ ایک الگ کہانی ہے اس بار بھی پی ڈی ایم ٹو وجود میں آئی اور عوام سے واعدہ کیا کہ وہ مہنگائی,غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ کریں گے۔
پی ڈی ایم ٹو نے اپنا پہلا بجٹ پیش کردیا ہے جس میں عام آدمی کو تقریباً زندہ درگور کردیا ہے بقول وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہبازشریف کے کہ یہ بجٹ ھم نے نہیں بنایا بلکہ آئی ایم ایف نے بنایا ہے ویسے حیرت ہے اگر یہ بجٹ آئی ایم ایف نے بنایا ہے تو اسے عام آدمی سے ہی اتنی چڑ کیوں ہے کہ سارے ٹیکسیز غریب اور آدمی پر ہی لگا دیے,سیاستدان,عدلیہ,
اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی سمیت اشرافیہ انہیں نظر کیوں نہیں آتی؟
آئی ایم ایف کو چھوٹے بچوں کا دودھ اسکول کے بچوں کی کاپیاں کتابیں تو نظر آجاتی ہیں مگر سیاستدانوں کے ہوائی ٹکٹس نظر نہیں آتے,ان کو عام اور غریب آدمی کی کھانے پینے کی چیزوں پر ٹیکس لگانا تو آجاتا ہے لیکن حکمرانوں کی عیاشیوں پر ان کی آنکھیں بند ہیں,اپنے بیمار بیٹے کیلئے پنکھا چلانے والے کو 20 ہزار کا بل بھجوانے والی آئی ایم ایف کو سیاستدانوں اور بیوروکریسی کو ہزاروں فری یونٹس نظر کیوں نہیں آتے ان کا ہزاروں لیٹر پٹرول ڈیزل نظر کیوں نہیں آتا یہ سب ڈھونگی ہیں ان کو کسی کی پرواہ نہیں ہے اور آئی ایم ایف جیسے ادارے کیلئے پاکستانی عوام کیوں اہمیت اختیار کرے گی انہیں تو اپنے مقاصد کی تکمیل چاہیے جس کیلئے وہ ہر ایسے ملک کو قرض کے چنگل میں پھنساتے ہیں جو معاشی طور پر کمزور ھوتا ہے اور پھر ان سے ہر جائز ناجائز کام لیتے ہیں آپ ہر اس ملک کی ہسٹری نکال کر دیکھ لیں جس میں ایک دفعہ آئی ایم ایف گھسا اور پھر اس کا حشر نشر نہ کیا,
پچھلے دنوں فیصل آباد میں ایک رکشہ ڈرائیور نے بجلی کا بل زیادہ آنے پر انوکھا احتجاج کرتے ھوئے چوک میں اپنے کپڑے اتار دیے اور کہا کہ میں حکمرانوں کو باور کرانا چاہتا ھوں کہ اب ھماری برداشت جواب دے چکی ہے ھمیں اتنا نہ ستایا جائے کہ آج اپنے کپڑے اتارے ہیں کل کو ان حکمرانوں کے اتاریں,اسی طرح دو تین دن پہلے ڈیرہ غازی خان میں غربت سے تنگ آکر ایک مجبور باپ نے اپنے دو بچوں سمیت دریا میں چھلانگ لگادی قسمت اچھی تھی کہ اسے اور اس کے بچوں کو بروقت بچالیا گیا,اس طرح کے سینکڑوں واقعات روزانہ ھورہے ہیں کیا ہی اچھا ھوتا کہ موجودہ گورنمنٹ عام آدمی کو ریلیف دیتی اور امیروں سے ٹیکس کلیکشن کرتی غریب بیچارہ اور کتنا ٹیکس دے وہ ایک ماچس کی ڈبیا سے لیکر ضروریات زندگی کی ہر چیز پر ٹیکس دے رہا ہے اور حکومت بجائے ٹیکس چوروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے عام آدمی کی کھال ادھیڑنے پر لگی ہے حکمرانوں کو چاہیئے کہ وہ بیشک ٹیکس لگائیں کیونکہ کوئی بھی ریاست تب تک اپنے پاؤں پہ کھڑی نہیں ھوسکتی جب تک وہاں کی عوام ٹیکس نہ دے مغربی و یورپی ممالک میں لوگ بغیر کسی سختی کے ٹیکس دیتے ہیں اور ان کے حکمران اس ٹیکس کو انہی کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتے ہیں اور ھمارے حکمران غریبوں کی چمڑی ادھیڑ کر بیرون ملک جاکر پراپرٹیاں بناتے ہیں آخر ایسا کب تک چلے گا ھمارے حکمرانوں کو کب سمجھ آئے گی ان کو نہیں لگتا کہ اب عوام ھم سے ووٹ کا حساب مانگتی ہے وہ انہیں کتنی دیر اور بیووقوف بنالیں گے؟
گزشتہ دنوں کینیا میں مجوزہ ٹیکسوں میں اضافے پر عوام مشتعل ھوکر سڑکوں پر نکل آئی اور احتجاج کرنا شروع کردیا اسی طرح جس طرح سری لنکا میں عوام باہر نکلی تھی اور حکمرانوں کو بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔
اگست اور ستمبر میں بجلی اور گیس کے بلوں اور ہر طرح کی اشیائے خوردونوش پر ٹیکسوں کی بھرمار سے عام آدمی کی چیخیں نکل جائیں گیا اور ان کا جینا محال ھوجائے گا,مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ان کو ایسے مشورے کون دیتا کہ ایک طرف سے بجلی مہنگی کردی ہے دوسری طرف سولر پہ ٹیکس لگا دیا ہے بجلی کے بلوں میں پروٹیکٹڈ اور نان پروٹیکٹڈ اور گیس کے بلوں میں سلیب کا انوکھا فارمولا یعنی آپ اپنے چار پانچ دوستوں کے ساتھ کسی چائے کے ھوٹل پر جائیں وہاں ھوٹل مالک آپ کو کہے کہ جناب چائے کا پہلا کپ آپ کو ساٹھ روپے کا ملے گا دوسرا 80 کا تیسرا 100 کا چوتھا 120 کا اور پانچواں 150 کا تو کیا اس کے اس لاجک پر آپ خاموش رہ کر اسے اسی حساب سے پیسے دیں گے یا اس سے سوال کریں گے کہ میاں یہ ایک ہی طرح کے دودھ سے اکٹھی پانچ کپ چائے بنی ہے تو ان کے ریٹس الگ الگ کیوں؟
جی ہاں اسی طرح جیسے ھماری حکومت نے 200 یونٹ تک کا بل 3083 روپے اور 201 یونٹ کا بل 8154 روپے مطلب ایک یونٹ 5071 روپے کا اور یہ بل اگلے 6 ماہ اسی طرح آتا رہے گا یعنی غریب آدمی کو اوپر والا ایک منٹ 6 ماہ میں تیس اکتیس ہزار کا پڑگیا,یہ اس غریب عوام کیساتھ زیادتی اور ظلم نہیں تو اور کیا ہے اور دوسری طرف گورنر کے پی کے کے گھر کا بل تیس لاکھ آتا ہے تو وہ اسے سرکاری رہائش گاہ ڈیکلئیر کردیتا ہے یعنی وہ بھی عوام کی جیب سے نکلے گا۔
ھمارے حکمرانوں کو ھوش کے ناخن لینے ھوں گے کیونکہ عوام اب بہت تنگ آچکی ہے شہبازشریف جوکہ عوام دوست لیڈر سمجھے جاتے تھے جن کا نام سن کر بیوروکریسی کی ٹانگیں کانپنا شروع ھوجاتی تھیں آج اسی بیوروکریسی نے ان کو گھمایا ھوا ہے ویسے تو انہیں مشیروں کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ ایک منجھے ھوئے سیاستدان ہیں لیکن پھر بھی اگر ان کا کوئی وزیر یا مشیر ان کو عوام دشمن فیصلوں کے مشورے دے رہا ہے تو وہ ان کا دوست نہیں ھوسکتا انہیں چاہیئے کہ وہ آنکھیں کھولیں اور عام آدمی کو فی الفور ریلیف دیں جو اضافی ٹیکس لگائے گئے ہیں ان کو ختم کیا جائے بجلی,گیس اور اشیائے خوردونوش سمیت تمام روزمرہ کی استعمال کی چیزوں پر ہر طرح کا ٹیکس ختم کیا جائے حکومت کو چاہیئے کہ وہ اپنے اور بیوروکریسی کے اخراجات اور اللے تللے ختم کرے کسی کو بھی مفت بجلی,گیس,پٹرول بند کردیا جائے خاص کر بیوروکریسی اور سرکاری ملازمین کی فضول خرچیوں سے چھٹکارا حاصل کیا,اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ غربت اور بیروزگاری نہیں بلکہ کرپشن اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے جب تک اس کا قلع قمع نہیں ھوتا تب تک یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ھوسکتا,اس کے علاوہ عدم استحکام کی وجہ سے آج انڈیا,بنگلہ دیش اور افغانستان جیسا ملک ھم سے آگے نکل گیا ھمارے سیاستدانوں سمیت تمام اسٹیک ھولڈرز کو ایک پیج پر آنا ھونا یہ آپسی اختلافات بھلا کر پاکستان کی فلاح و بہبود اور ترقی میں اپنا اپنا حصہ ڈالنا ھوگا ھم جب تک معاشی طور پر مضبوط نہیں ھوں گے تب تک یونہی کشکول لیے دربدر پھرتے رہے گے ھمیں یہ کشکول توڑنا ھوگا اور سب کو ملکر یہ عہد کرنا ھوگا کہ ھم سب مل کر اس ملک کو بابائے قوم کا ایک عظیم ملک بنائیں گے انشاءﷲ
رب کریم سے دعا ہے کہ وہ میرے ملک کو ھمیشہ سلامت رکھے اور اسے دن دگنی رات چوگنی ترقی دے۔آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button