کالمز

کیا ہم آزاد ہیں؟

عنوان : کیا ہم آزاد ہیں؟
از قلم: مریم بتول، نوشہرہ سُون ویلی

14 اگست یعنی آزادی کا دن۔ کیوں یہی سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم آزاد ہیں؟ اپنی دھرتی سے الفت کی وجہ سے ہم ہمیشہ سے 14 اگست کے موقع پر مسرت و افتخار کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ سوال اٹھتا آیا ہے کہ کیا ہم آزاد ہیں؟ پچھلے 76 سالوں کی نسبت 14 اگست 2024 کا یومِ آزادی ہر ایک کو اس سوال کے کٹہرے میں دھکیلے ہوئے ہے۔ کہ ایک ملک جس کو آزاد تو لا الٰہ الا اللہ کی بنیاد پر کرایا گیا، آج اُسی ملک کے اندر مسلمان حکومت ہونے کے باوجود مسلمانوں پہ عرصہ ء حیات تنگ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ایسا ملک جس کو پانے کے لیئے بے شمار قربانیاں ہمارے آباؤ اجداد نے دیں، یہاں تک کہ مال و متاع ، عزت و عصمت اور جان تک کی قربانیاں دینے سی بھی دریغ نہیں کیا۔ مگر کس لیئے؟ شاید اسی لیئے کہ آنے والی نسلیں وطنِ عزیز کی خوشگوار فضاؤں میں دینِ اسلام کے اصولوں کے مطابق پُر سکون زندگی گزار سکیں۔ مگر کیا آج ہم بطورِ مسلمان اور بحیثیتِ پاکستانی آزادی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں؟ کیا ہمارے ملک کے ایک عام شہری، ایک مزدور، ایک جفاکش یا کسی بھی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص کو ریاست آزادانہ حقوق سے آراستہ کر رہی ہے؟ یہاں تک کہ درمیانے طبقے سے تعلق رکھے والے افراد کی رگوں کا خون بھی مکمل طور پر نچوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ روز بروز بڑھتی مہنگائی اور بجلی کے بل عوام کے اعصاب پہ بارِ گراں کی طرح سوار ہیں۔ یہی نہیں ایک ایسا ملک جہاں آئین کے مطابق حاکمیت تو اللہ تعالٰی کی قرار دی جائے مگر خود خدائی کے فیصلے کیئے جائیں وہاں آزادی کا لفظ کیا مفہوم رکھتا ہے؟ ایک ایسا ملک جہاں آزادیء اظہارِ رائے پر پابندی ہو، جہاں اگر کوئی فرعونیت کے خلاف ڈھکے چھپے الفاظ میں بھی آواز اٹھائے تو اُسے پابندِ سلاسل کر دیا جاتا ہے۔ کیا اُس ملک کی عوام آزاد کہلانے کی مستحق ہے؟ کیا 77 سالوں میں یکے بعد دیگرے آنے والی سیاسی جماعتوں نے عوام کو محکومی و غلامی کی بندشوں سے آزاد کروانے کی کوشش کی؟ یا انھیں مزید کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا؟ پاکستان بننے کی بنیادی وجوہات اور بزرگوں کی تگ و دو پر نظر دوڑائیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ جس مقصد کے لیئے پاکستان کو حاصل کیا گیا وہ مقصد کبھی پورا ہوتا نظر نہیں آیا۔ حکمرانوں اور قانون ساز اداروں کا کردار تو ایک طرف مگر یہاں تو پورا معاشرہ ہی اخلاقی گراوٹ و انحطاط کا شکار ہے۔ ہمارے پست روئیوں اور ناجائز کاروائیوں کی بدولت پاکستانیوں کو دنیا بھر میں مشکوک اور بدعنوان سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ پاکستان جہاں پاک لوگوں کی رہائش گاہ سے موصوم ہے وہیں یہ دینِ الٰہی کا نام ہے اور دینِ الٰہی ایمان و اخلاق کی بلندیوں کو چھونے کا نام ہے۔ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کے ہم حقیقی و لغوی معنوں میں ایک آزاد اسلامی ریاست کے باشندے ہونے کا حق ادا کرتے ہیں؟ یا صرف 14 اگست پہ ہم دل کی گہرائیوں سے یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ اس روز خداوندِ کریم نے ہمیں ایک کرشمے سے نوازا، جسے ہم پاکستان کہتے ہیں۔ جس میں ہم آزاد ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ آزادی کو ہم نے درست معنوں میں سمجھا ہی نہیں کہ ربِ ذوالجلال نے ہمیں بے شمار وسائل سے بھرا خوبصورت وطن عطا کیا، اور ہم نے متحد ہو کر حقوق غصب کرنے والوں کے خلاف آواز نہ اٹھائی۔ اور ہر آنے والے کی غلامی کی۔ ہمارے قلوب و اذہان میں نسل در نسل غلامی منتقل ہوتی چلی آ رہی ہے۔ اور ہم اس کے خاتمے کے لیئے کوئی نمایاں کوشش بروئے کار نہیں لاتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم آزاد ملک کے باشندے ہیں اور ظاہری طور پر کسی بھی بیرونی طاقت کی مداخلت کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ ورنہ ہمارے جیسے ہی کئی مسلمان فلسطین اور کشمیر میں انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارے جا رہے ہیں۔ مگر ہمارے جیسے آزاد پاکستانی اُن کی مدد کو نہیں پہنچ سکتے۔ آخر اِس کے پیچھے کیا وجہ ہے! ہماری آزادی یا ہماری محکومی؟ یہی نہیں اپنے ہی ملک کے حالات پہ مزید غور کیا جائے تو چاروں صوبوں کے درمیان برابری اور اجتماعیت نہیں ملتی۔ بنیادی حقوق و وسائل تک رسائی ہر خاص و عام کے لیئے برابری کی سطح پر نہیں۔ اور کیا بلوچ نسل کشی بلوچیوں کی آزاد ریاست کے باشندے ہونے کا ثبوت ہے؟ اور کیا یہ نسل کشی اس نقطے کی طرف اشارہ نہیں کرتی کہ آنے والے وقت میں پورا پاکستان فلسطین و کشمیر کی شکل اختیار کر سکتا ہے؟ تو کوئی منصف اگر انصاف کرنے بیٹھے یا جب کوئی قلم آزادی کے متعلق اظہارِ مسرت کے لیئے اُٹھے مگر اُسے رنج و غم سے بھرے حقائق کے سوا کچھ نہ ملے تو وہ یہ کیسے لکھ دے کہ ” آزاد ہیں ہم”!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button