معرکۂ حق کا خاموش مجاہد


تحریر: نازیہ مصطفےٰ
مئی 2025 کے گرمی سے بھرپور دنوں میں جب خطّے پر بے یقینی کے بادل ایک بار پھر گہرے ہورہے تھے، تو اس دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان وہ معرکہ برپا ہوا جسے اسلامی تاریخ نے “معرکۂ حق” کے نام سے یاد رکھنا تھا۔ اس معرکے نے سرحدوں پر صرف گولہ و بارود کی گھن گرج ہی نہیں دیکھی بلکہ پیشہ ورانہ عسکری بصیرت، تکنیکی مہارت اور حکمتِ عملی کے اس امتزاج کا بھی مشاہدہ کیا جو جدید دور کی ہوا بازی اور کثیر الجہتی حربی تاریخ (ملٹی ڈومین جنگ) کا نیا سنگِ میل بھی ثابت ہوا۔ طاقت کے خمار میں بھارت نے جو غلطی کی، اس نے جنوبی ایشیا کو ایک بڑے بحران کی دہلیز پر لاکھڑا کیا تھا، مگر پاکستان کی افواج، بالخصوص پاکستان ایئر فورس نے جس جوانمردی، برق رفتاری اور حکمت کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا، وہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک نصاب کی حیثیت رکھتا ہے۔اس معرکے کا احوال صرف میدانِ جنگ کا ایک بیان نہیں، بلکہ ایک ایسی تبدیلی کی کہانی بھی ہے جو برسوں کی خاموش محنت، جدید اپ گریڈیشن اور قومی قیادت کے یکسوئی سے کیے گئے فیصلوں کا نتیجہ تھی۔ یہی وہ پس منظر تھا جسے ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو نے ایئر فورس اکیڈمی اصغر خان کی گریجوایشن تقریب میں نہایت جامع انداز میں بیان کیا۔ ان کے الفاظ محض ایک تقریر کے حصہ کے بجائے ایک ایسی “تاریخی” دستاویز ہیں جو بتاتی ہے کہ معرکۂ حق محض چند منٹوں یا چند دنوں کی لڑائی نہ تھی بلکہ پاکستان ایئر فورس کے طویل سفر، جدید سوچ اور مکمل تبدیلی کی علامت تھی۔ایئر چیف نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ نئے کمیشنڈ آفیسرز اُس فضائیہ میں قدم رکھ رہے ہیں جو “جدید فضائی لڑائی میں آزمودہ، ٹیکنالوجی میں بطور لیڈر اور اب دنیا بھر میں ایک بڑی تسلیم شدہ قوت” بن چکی ہے۔ ان کے مطابق وہ بھروسہ جو پاکستان عوام اپنی مسلح افواج پر کرتے ہیں، وہ عشروں کی قربانی، پیشہ ورانہ دیانت اور فرض شناسی سے کمایا گیا ہے اور پاکستان ایئر فورس آج بھی “کسی سے کم نہیں اور قوم کے لیے فخر کی علامت ہے”۔معرکۂ حق دراصل اسی نئی بصیرت کا عملی مظاہرہ تھا۔ 6 اور 7 مئی کے درمیانی شب جب بھارت نے عددی برتری، جدید طیاروں اور بڑے دعووں کے ساتھ پاکستان کی فضائی سرحدوں پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کی تو اسے وہ جواب ملا جس نے پوری دنیا کے عسکری تجزیہ کاروں کو حیران کرکے رکھ دیا۔ یہ نہ صرف 21ویں صدی کی طویل ترین بی وی آر (Beyond Visual Range) فضائی لڑائیوں میں سے ایک تھی بلکہ اس میں پاکستان ایئر فورس نے جس سرعت اور درستگی سے دشمن کے جنگی اثاثوں کو نشانہ بنایا، وہ عسکری ماہرین کے نزدیک “خطے میں ایئر پاور کے نظریے کی ازسرنو تشکیل” تھی۔حقیقت یہی ہے کہ رافیل، سو-30 ایم کے آئی، مِگ-29 اور میراج 2000 جیسے طیاروں کا مار گرائے جانا، خوش قسمتی یا اتفاق نہیں بلکہ برسوں کی منصوبہ بندی، تربیت اور بروقت تکنیکی انضمام کا نتیجہ تھا۔ ایئر چیف سدھو نے واضح کیا کہ یہ وہ لمحہ تھا جب پاکستان نے پہلی بار مکمل “فل اسپیکٹرم ملٹی ڈومین وارفیئر” کا مظاہرہ کیا۔ یعنی فضا میں کائنیٹک کارروائیوں کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک وارفیئر، سائبر افیکٹس اور سپیس بیسڈ سچوئیشنل اویئرنیس کو ایک مربوط نظام کے تحت استعمال کیا گیا۔معرکے کا سب سے حیران کن پہلو بھارتی S-400 ایئر ڈیفنس سسٹم کا مؤثر طور پر غیر فعال ہونا تھا، جسے بھارت خطے میں “گیم چینجر” قرار دیتا آیا تھا۔ لیکن اس سسٹم کا دوران جنگ کا “خاموش ہو جانا” دنیا کے لیے دو حقیقتیں بے نقاب کر گیا۔ اول یہ کہ ٹیکنالوجی کا غرور جنگ جیتنے کی ضمانت نہیں، اور دوم یہ کہ مقامی انجینیئرنگ، الیکٹرانک وارفیئر، سائبر صلاحیتوں اور اسمارٹ پلیٹ فارمز کی دانشمندانہ تکمیل دنیا کی سب سے پیچیدہ ڈیفنس لائنز کو بھی ناکارہ بنا سکتی ہے۔یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔ پاکستان ایئر فورس نے برسوں پہلے فیصلہ کرلیا تھا کہ دفاع صرف مہنگے پلیٹ فارمز کا محتاج نہیں، بلکہ مربوط صلاحیتوں کا تشکیل شدہ نظام ہونا چاہیے۔ محدود بجٹ اور بڑھتے ہوئے خطرات کے پیشِ نظر فضائیہ نے پلیٹ فارم سینٹرک اپ گریڈیشن کے بجائے “کیپیبلٹی سینٹرک ماڈرنائزیشن” کا راستہ اپنایا۔ اسمارٹ انڈکشن پروگرام کے ذریعے ڈرونز، لوئٹرنگ امنیشنز، مقامی الیکٹرانک وارفیئر سسٹمز، طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیار، سپیس بیسڈ آئی ایس آر، مصنوعی ذہانت سے چلنے والی فیصلہ ساز ٹیکنالوجیز، مربوط کمانڈ اینڈ کنٹرول نیٹ ورکس اور مضبوط سائبر انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری کی گئی۔اسی تبدیلی کی ایک روشن مثال نیشنل ایرو اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک (NASTP) ہے، جس نے پاکستان کو صرف ٹیکنالوجی کے خریدار سے ترقی یافتہ حل تیار کرنے والے ملک میں بدلنے کا سفر شروع کروایا۔اپنے خطاب میں ایئر چیف ظہیر احمد بابر سدھو نے معرکۂ حق کے بعد پاکستان کی “اسٹریٹیجک میچیورٹی” کا بھی ذکر کیا۔ مثال کے طور پر پاکستان نے دشمن کو شکست دینے کے باوجود جنگ کو طول نہ دے کر ایک ذمہ دار جوہری قوت کی پہچان برقرار رکھی۔ دنیا نے دیکھا کہ پاکستان نے طاقت کا استعمال کیا، مگر حد سے بڑھ کر نہیں۔ صلاحیت دکھائی، مگر اشتعال نہیں۔ یہ وہ توازن ہے جو صرف پیشہ ور افواج ہی برقرار رکھ سکتی ہیں۔حربی امور کے ماہرین کے مطابق اس حوالے سے چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قائدانہ بصیرت بھی کلیدی کردار رکھتی تھی۔ ان کی اسٹریٹیجک واضح سوچ، بروقت فیصلے، تینوں سروسز کے درمیان ہم آہنگی اور پرسکون عزم نے وہ ماحول پیدا کیا جس میں پاکستان ایئر فورس کی جدید صلاحیتیں اپنی پوری قوت کے ساتھ بروئے کار آسکیں۔ایئر چیف نے اس حقیقت کو بھی نمایاں کیا کہ پاکستان ایئر فورس نے ہر دعوے کے ثبوت فراہم کیے، ہر کارروائی کا ڈیٹا ریکارڈ کیا اور ہر اعلان کو تصدیق کے عمل سے گزارا۔ آج کے دور میں جب پروپیگنڈا ایک ہتھیار بن چکا ہے، تو ایسے میں سچائی اور ثبوت اپنی جگہ خود ایک اسٹریٹیجک طاقت بن چکے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ معرکۂ حق کے اثرات سرحد سے بہت آگے تک محسوس کیے گئے۔ دنیا کے عسکری اداروں نے پاکستان کے کردار کو ذمہ دار جوہری طاقت کے طور پر سراہا۔ علاقائی حکمتِ عملی میں پاکستان کے کردار کی نئی تعریف سامنے آئی اور خطے نے یہ حقیقت تسلیم کی کہ پاکستان ایئر فورس اب صرف فضائی حدود کی محافظ نہیں بلکہ آنے والی دہائیوں کی جنگی ساخت کو نئے اصولوں کے مطابق متعین کرنے والی ایک بڑی قوت بھی ہے۔مئی 2025 کا معرکہ محض ایک جنگ نہیں تھا بلکہ یہ اعلان تھا کہ پاکستان دفاعی میدان میں خود کفالت، فہم، حکمت اور جرات کے نئے دور میں داخل ہوچکا ہے۔ نئی نسل کے ایئر وارئیرز کے لیے پیغام بھی واضح تھا، یعنی “مستقبل کی جنگیں صرف طیارے نہیں لڑیں گے بلکہ صلاحیتوں کے مربوط نظام لڑیں گے، اور پاکستان ایئر فورس وہ مرحلہ عبور کرچکی ہے جہاں وہ نہ صرف دفاع کرتی ہے بلکہ جنگ کے ڈھانچے کو بھی بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے”۔قارئین کرام! یہ معرکہ پاکستان کے لیے ایک نیا اعتماد، ایک نئی پہچان اور ایک نئی ذمہ داری چھوڑ گیا ہے۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ جب قوم کا ہر ستون متحد ہو، ہر سپاہی پرعزم ہو اور ہر ادارہ حقیقت کی بنیاد پر کھڑا ہو، تو بڑی سے بڑی زمینی طاقت بھی اس کے سامنے سرنگوں ہوجاتی ہے۔ یہی معرکۂ حق کا اصل پیغام ہے۔ اور بلاشبہ ایئر چف ظہیر احمد بابر سدھو اس معرکہ کے خاموش مجاہد ہیں، جنہوں نے بڑے بول بولنے کی بجائے، عملی طور پر وہ سب کرکے کے دکھایا، جو فضائی سرحدوں کے ایک محافظ کو کرنا چاہیے تھا۔



