اہم خبریں

صحافی فراز بٹ کے گھر پر حملہ، والدہ اور والد پر تشدد، والد کو اغوا کرنے کی کوشش

صحافی فراز بٹ کے گھر پر حملہ، والدہ اور والد پر تشدد، والد کو اغوا کرنے کی کوشش

صحافی کے والدین پر حملے نے ایس ایچ او راجہ عثمان اور چوکی انچارج اقبال خان کی مافیا دوست پالیسی کو بے نقاب کردیا

ابھی تک Etag تک ہمیں نہیں دیا گیا نہ ہی ہمیں اپنی درخواست کی فوٹوں کاپی دی گئ

راولپنڈی (احمد ضمیر سے) تفصیلات کے مطابق تھانہ واہ کینٹ کی حدود میں 8 فروری  باوقت دن 4:30 کے قریب  5 افراد مہران کار پر فراز بٹ کے گھر پر آئے اور اور فراز بٹ کے والد دروازہ کھول کر باہر نکلے تو پانچ مسلحہ افراد نے فراز بٹ کے بارے میں پوچھا کے فراز بٹ کہاں ہے فراز بٹ کے والد نے جواب دیا کے وہ گھر پر نہیں ہے۔یہ بات سنتے ہی ان میں سے ایک افراد نے فراز بٹ کے والد کو گالیاں دینا شروع کر دی ۔اور ساتھ ہی کہا کے گاڑی میں بیٹھوں  جس پر فراز بٹ کے والد نے انکار کیا تو زبردستی فراز بٹ کے والد کو اغوا کرنے کی کوشش کرنے لگے جس دوران فراز بٹ کی والدہ بھی گھر سے باہر نکل آئی اور فراز بٹ کے والد کو بچانے کی کوشش کرنے لگی اسی دوران ایک شخص جس کا نام زوہیب کیانی ہے نے فراز بٹ کی والدہ کے ساتھ ہاتھا پائی کی اور فراز بٹ کی والدہ کے کپڑے پھاڑ دیے ۔جس کے بعد فراز بٹ کی والدہ اور والد نے 15 پر کال کی تو تقریبًا 45 منٹ بعد صرف ایک اہلکار موقعہ واردات پر پہنچے اور ہمیں کہا کے آپ چوکی پے آجائے۔

*پولیس کا کردار انتہائی مشکوک*
صحافی فراز بٹ کا موقف
جس وقت میں اپنے والد کوساتھ  لے کر چوکی 4 میں درخواست دینے گیا تو ہماری درخواست لینے کے بعد ہمیں بتایا جاتا ہے کے دوسری پارٹی بھی درخواست دے گئ ہے ۔۔۔مطلب پہلے ہمارے گھر پر حملہ کیا پھر خود کو معصوم ظاہر کرنے کے لیے چوکی کا سہارا لیا گیا ۔۔۔۔پولیس کا کردار انتہائی مشکوک اس لیے بھی ہے کے ابھی واقعہ رپورٹ ہوے 28 گھنٹے ہوگئے لیکن ہمیں etag بھی نہیں دیا جارہا ۔
نہ ہی ہماری درخواست کی فوٹو ہمیں لینے دی گئ اور نہ ہی درخواست کی کاپی دی گئ۔
اس کے بعد صحافی بھائیوں کی تھانہ آمد پر ایس ایچ او صاحب تھانہ ہذا سے غائب ہوگئے۔اور واقعہ کے 6 گھنٹے بعد ایک صحافی کے کال کرنے پر کہا کے آپ فراز بٹ کے گھر آجاے میں وہی آتا ہو اور جب ایس ایچ او راجہ عثمان بمہ چوکی انچارج موقعہ واردات پر آے تو آتے ساتھ ہی ہم سے کہا کے درخواست چینج کر دے اس میں مسلحہ کا لفظ ہٹا دے اور والدہ کا ذکر بھی نہ کرے ۔جس پر ہم نے کہا کے ہم درخواست تبدیل نہیں کرے گے حقائق یہی ہے تو ایس ایچ او صاحب نے کہا آپ کل آجاے تھانے صبح 11 بجے ۔اس بابت ہم نے جواب دیا کہ آپ ملزمان کو پکڑ کر لائیں ابھی یا انھیں بلائیں تو ایس ایچ او نے کہا میں ابھی نہیں بولا سکتا ۔مطلب ایس ایچ او نے صاف انکار کر دیا ۔اور آج جب ہم اے ایس پی ٹیکسلا کے پاس گئے تو وہاں خود کو بچانے کے لیے ایس ایچ او نے سفید جھوٹ بولنا شروع کر دیا اور ہم پر الزام لگا دیا کے ہم درخواست تبدیل کرنا چاہتے ہے جب کے ہم ایسا نہیں چاہتے ۔اور ابھی تک ہمیں نہ ہماری درخواست کی کاپی دی جارہی نہ ہی etag لگایا گیا ۔

میری بطور صحافی وزیراعلی مریم نواز ،آئی جی پنجاب ،آر پی او راولپنڈی اور سی پی او سے گزارش ہے کے میرے بزرگ والد اور والدہ پر گھر آکر تشدد کرنے اور اور میرے والد کو اغوا کرنے اور میری والدہ کے کپڑے پھاڑنے پر مجرمان کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے ۔اور اپنے ایس ایچ او راجہ عثمان  اور چوکی انچارج اقبال کے خلاف انکوائری کا حکم دیا جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button