کالمز

عالمی منڈی میں تیل سستا، مگر پاکستانی عوام ریلیف سے محروم

عالمی منڈی میں تیل سستا، مگر پاکستانی عوام ریلیف سے محروم

تحریر: محمد فیصل ندیم

عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ برینٹ کروڈ آئل کی قیمت اپریل 2025 کے آغاز میں 90 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر 75 ڈالر سے بھی نیچے آ گئی، جو کئی ماہ بعد ایک بڑی تبدیلی سمجھی جا رہی ہے۔ ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ صارفین تک پہنچایا جا رہا ہے، پاکستان کی حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہ کرنے کا اعلان کیا، جس پر ہر طبقے نے سوال اٹھایا کہ آخر اس عالمی ریلیف کا فائدہ عوام کو کیوں نہیں دیا گیا؟وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت ہونے والے کابینہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ عالمی قیمتوں میں کمی سے حاصل ہونے والی ممکنہ مالی بچت کو عوام کو ریلیف دینے کے بجائے بلوچستان کے ایک بڑے ترقیاتی منصوبے، این-25 ہائی وے کی دو رویہ تعمیر پر خرچ کیا جائے گا۔ یہ شاہراہ چمن، کوئٹہ، قلات، خضدار اور کراچی کو آپس میں جوڑتی ہے، جو تجارتی و عسکری لحاظ سے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ حکومت کے مطابق، یہ فیصلہ عوامی فلاح کے طویل المدتی مفاد میں کیا گیا ہے، تاکہ پسماندہ علاقوں کو ترقی دی جا سکے اور اندرونی رابطہ مضبوط ہو۔حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ سڑک نہ صرف بلوچستان کے لوگوں کو باقی ملک سے جوڑنے میں مدد دے گی بلکہ تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دے کر معیشت پر مثبت اثر ڈالے گی۔ اس کے علاوہ، ان کا مؤقف ہے کہ وقتی ریلیف سے زیادہ پائیدار ترقی کی طرف قدم بڑھانا زیادہ ضروری ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام کے لیے فوری ریلیف زیادہ اہم نہیں؟یہ حقیقت ہے کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی براہِ راست عام آدمی کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ جب ایندھن سستا ہوتا ہے تو:ٹرانسپورٹ کے کرایے کم ہوتے ہیںاشیائے ضروریہ کی قیمتیں نیچے آتی ہیںکاروباری لاگت میں کمی آتی ہےکسانوں، مزدوروں، اور متوسط طبقے کو سانس لینے کا موقع ملتا ہےلیکن جب عالمی سطح پر تیل سستا ہو اور ملکی سطح پر قیمتیں جوں کی توں رہیں، تو عوام بجا طور پر مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔ حکومت کا یہ اقدام بظاہر ایک ترقیاتی سوچ کی عکاسی کرتا ہے، مگر عوامی مشکلات کے دور میں فوری ریلیف نہ دینا ایک سیاسی اور معاشی غلطی محسوس ہوتی ہے۔مہنگائی کی موجودہ شرح، بے روزگاری اور کم آمدن والے طبقات کی حالتِ زار کو مدنظر رکھتے ہوئے، پیٹرول کی قیمتوں میں کمی ایک لازمی ضرورت بن چکی تھی۔ لیکن حکومت نے اس موقع کو گنوا دیا، اور نتیجتاً عوام کے درمیان احساسِ محرومی میں اضافہ ہوا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ، حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر پٹرولیم لیوی بھی برقرار رکھی ہے، جو فی الحال 70 روپے فی لیٹر کے قریب ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر عالمی قیمتیں گر بھی جائیں تو عوام تک اس کا فائدہ محدود ہی پہنچے گا، کیونکہ حکومت ٹیکس کی مد میں قیمتوں کو بلند سطح پر رکھتی ہے۔یہ لیوی دراصل حکومت کے ریونیو کا ایک بڑا ذریعہ ہے، جو مالی خسارے کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے، لیکن اس کا براہ راست بوجھ عوام پر پڑتا ہے۔ اس وقت جب ملک میں بجلی، گیس، آٹا اور دیگر بنیادی ضروریات کی قیمتیں بلند ترین سطح پر ہیں، ایسے میں پیٹرول پر ٹیکس کا یہ اضافی بوجھ عوام کی زندگی کو مزید مشکل بنا رہا ہے۔ایسے فیصلے عوامی اعتماد کو کمزور کرتے ہیں۔ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر عالمی منڈی میں تیل سستا ہو رہا ہے تو انہیں اس کا فائدہ کیوں نہیں مل رہا؟ یہ سوال صرف معاشی نہیں بلکہ سیاسی بھی ہے۔ ایسے موقع پر قیمتوں کو برقرار رکھنا عوامی بے چینی کو جنم دے سکتا ہے۔عوامی ردعمل سوشل میڈیا اور مختلف فورمز پر شدت اختیار کر چکا ہے۔ ٹرانسپورٹرز، کسان یونینز اور تاجر برادری نے بھی اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے عام آدمی کو نظر انداز کر کے ایک مرتبہ پھر مخصوص منصوبوں کو فوقیت دی ہے۔دنیا کے کئی ممالک نے عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ فوری طور پر عوام کو دیا ہے۔ بھارت، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور ترکی جیسے ممالک نے اپنے صارفین کے لیے ایندھن کی قیمتوں میں واضح کمی کی، جس سے ان کی معیشتوں میں مہنگائی کی شرح کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی۔ پاکستان میں بھی اگر حکومت یہی پالیسی اپناتی تو مہنگائی کے دباؤ میں کمی آ سکتی تھی۔ترقیاتی منصوبے یقیناً اہم ہوتے ہیں، مگر جب عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہوں، جب مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہو، اور جب غریب طبقہ دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہا ہو، ایسے میں عالمی منڈی میں آنے والے فائدے کو عوام سے دور رکھنا ایک نامناسب ترجیح ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اس فیصلے پر نظرِ ثانی کرے، یا کم از کم ایک واضح حکمتِ عملی پیش کرے جس کے ذریعے عوام کو بھی کسی نہ کسی صورت میں ریلیف دیا جا سکے — چاہے وہ ایندھن کی قیمتوں میں کمی ہو، بجلی و گیس بلوں میں ریایت، یا اشیائے ضروریہ کی سبسڈی کی صورت میں ہو۔ بصورتِ دیگر، عوام میں مایوسی اور بے اعتمادی کا دائرہ مزید پھیلتا جائے گا، جو کسی بھی حکومت کے لیے خطرناک ہوتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button