نیاب میں ارنڈ اور تل کی کاشت پر قومی فیلڈ ڈے کا انعقاد

پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سرکردہ زرعی تحقیقی مرکز نیوکلیئر انسٹیٹیوٹ فار ایگریکلچر اینڈ بیالوجی (نیاب) میں بیش قیمت تیل دار فصلوں بالخصوص کیسٹر بین یعنی ارنڈ اور سیسمی یعنی تل کے قومی فیلڈ ڈے کا انعقاد کیا۔
ڈاکٹر شکیل عباس روفی، ممبر سائنس پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (پی اے ای سی) اس موقع پر مہمان خصوصی تھے۔
اپنے خطاب میں ممبر سائنس نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے جوہری ٹیکنالوجی کے استعمال سے ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی میں کردار پر روشنی ڈالی۔ کمیشن قومی اہمیت کے مختلف شعبوں میں پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے بھرپور کوشش کر رہا ہے۔
ڈاکٹر شکیل عباس روفی نے کہا کہ اس قومی تقریب میں شرکت کر کے مجھے بے حد خوشی ہو رہی ہے۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا قیام 1956 میں جوہری ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال کے مقصد کے ساتھ کیا گیا تھا۔ کمیشن کے چار زرعی تحقیقی مراکز ملک میں فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔
صحت کے شعبے میں، اٹامک انرجی کمیشن اپنے 20 کینسر ہسپتالوں کے ذریعے ملک میں کینسر کے 80 فیصد مریضوں کی تشخیص اور علاج کی ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (پنسٹک) کی جانب سے کینسر کی تشخیص کے لیے تیار کردہ ریڈیو فارماسیوٹیکل کٹس اور آیسوٹوپس پورے ملک کے ساتھ ساتھ خطے کے کینسر ہسپتالوں کو فراہم کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح ایک عالمی معیار کی انجینئرنگ یونیورسٹی، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز (پیاس)، نیوکلیئر اور متعلقہ انجینئرنگ کے شعبوں کے ساتھ ساتھ لیزر اور قوانٹم میکینکس کے ابھرتے ہوئے شعبوں میں کورسز آفر کر رہی ہے۔ کراچی انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر پاور انجینئرنگ (کنپو) اور چیسنپ سینٹر فار نیوکلیئر ٹریننگ (چیسنٹ) جیسے ادارے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور دیگر قومی اداروں کی افرادی قوت کو تربیت دے کر اپنا کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔
ممبر سائنس نے مزید بتایا کہ ہمارے 6 نیوکلیئر پاور پلانٹس قومی گرڈ کو 3530 میگاواٹ ماحول دوست، سستی اور قابل بھروسہ جوہری توانائی فراہم کر رہے ہیں۔
ممبر سائنس نے کہا کہ اٹامک انرجی کمیشن بے داغ ساکھ کا حامل ادارہ ہے اور ایسے ادارے ملک کے لیے امید کی کرن ہیں۔ انہوں نے روزی کمانے کے لیے دیانتدارانہ طریقوں اور ذرائع اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ لایوسٹاک میں دودھ کی پیداوار بڑھانے کے لیے نقصان دہ سٹیرائیڈز کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ زرعی اجناس کے صارفین کی بھلائی کے لیے ملاوٹ سے پرہیز کرنا نہ صرف ہمارا قومی فریضہ بلکہ مذہبی ذمہ داری بھی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خود کفالت اور وسائل کی دستیابی ہمارے لیے ایک نیا چیلنج ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ترقی پسند کسانوں کو نیاب جیسے ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ اداروں کی مدد کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔
قبل ازیں، پروفیسر ڈاکٹر ایم یوسف سلیم، ڈی جی ایگری اینڈ بائیوٹیک نے نیاب کو اس معلوماتی اور مفید قومی تقریب کے انعقاد پر مبارکباد دی۔
ڈاکٹر عظمیٰ مقبول، ڈائریکٹر نیاب نے شرکاء کا خیرمقدم کیا اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے پالیسی کے تحت کیسٹر بین اور تل کو فروغ دینے کے حوالے سے قومی فیلڈ ڈے کے انعقاد کے مقصد کی وضاحت کی۔ انہوں نے نیاب کے مختلف ڈویژنوں کا تفصیلی تعارف بھی پیش کیا۔
اس موقع پر نیاب کے فوکل پرسن ڈاکٹر محمود الحسن نے قومی تقریب کے بارے میں تفصیلی پریزنٹیشن دی۔
ڈاکٹر ایوب خان، نیشنل پروجیکٹ ڈائریکٹر، پاکستان آئل سیڈ ڈیپارٹمنٹ نے بھی خطاب کیا۔ مختلف صوبوں کے ماہرین، ارنڈ اور تل سے وابستہ اسٹیک ہولڈرز بشمول ترقی پسند کسانوں، بیجوں کی کمپنیوں، صنعتوں، برآمد کنندگان، سائنسدانوں، آر اینڈ ڈی انسٹیٹیوٹس اور یونیورسٹیوں کے فیکلٹی ممبران نے بھی اس تقریب میں شرکت کی۔
قومی فیلڈ ڈے میں نیاب گولڈ، سپاینلیس، اور کیسٹر 2023 اقسام کا فیلڈ وزٹ بھی شامل تھا جو کہ موسمیاتی لحاظ سے موزوں، کم از کم پختگی کی مدت کے ساتھ زیادہ پیداوار دینے والی ہیں۔
قومی فیلڈ ڈے کے اختتام پر، کیسٹر بین اور تل کی اقسام کے پری بیسک بیج بھی ترقی پسند کسانوں میں تقسیم کیے گئے۔
کیسٹر بین بنیادی طور پر کیسٹر آئل نکالنے کے لیے استعمال ہوتی ہے، جسے مختلف صنعتی اور دواؤں کے استعمال کے علاوہ بائیو فیول کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جب کہ برآمدی صلاحیت اور تیل کی اعلی مقدار کی وجہ سے تل کی مانگ میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔



