اہم خبریں

27ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی میں پیش — وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ: “آئینی عدالت کا قیام میثاقِ جمہوریت کی روح کے مطابق ہے”

ستائیسویں ویں آئینی ترمیم سینیٹ سے منظور کردہ صورت میں قومی اسمبلی میں پیش کردی گئی، ایوان میں سیر حاصل بحث کے بعد منظور کیا جائے، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ

اسلام آباد (محمد فیصل ندیم سے) 27 ویں آئینی ترمیم سینیٹ سے منظور کردہ صورت میں قومی اسمبلی میں پیش کردی گئی جبکہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ سینیٹ سے منظور کردہ آئینی ترامیم کے بل میں آئینی عدالت کے قیام،ازخود نوٹس کے خاتمے،ججز کے ہائی کورٹ کی سطح پر تبادلے،فیلڈ مارشل کے عہدے کو تاحیات آئینی تحفظ اور صدر مملکت کو عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد استثنا شامل ہے،اس پر اس ایوان میں سیر حاصل بحث کے بعد اس کو منظور کیا جائے۔اس میں سے بیشتر ترامیم میثاق جمہوریت کے روح کے مطابق ہیں۔منگل کو قومی اسمبلی میں بل پیش کرنے کے بعد اس کے خدو خال بتاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد کافی مباحثہ کے بعد میثاق جمہوریت میں قوم سے کئے وعدے کے مطابق آئینی عدالت کا قیام بھی شامل تھا۔اپوزیشن کے کہنے پر ہم نے آئینی بنچز کے قیام پر اتفاق کیا اور اسے منظور کیا۔ججز کی تعیناتی دنیا بھر میں عدلیہ،انتظامیہ اور مقننہ مل کرتے ہیں۔8 ارکان نے بھی کمیشن کے فیصلے کو سنگل بنچ نے تبدیل کردیا۔یہ ترمیم پاس ہوئی تو پھربھی اعتراضات اٹھائے گئے۔عدالت کا وقت 30 سے 40 فیصد آئینی معاملات لے گئے۔ایک آزاد آئینی عدالت پر سب کی رائے لی گئی۔حلیف جماعتوں سے بھی وقتاً فوقتاً مشاورت کی گئی،اس میں اس عدالت کے قیام کا فیصلہ ہوا۔اس بل کو سینیٹ آف پاکستان نے دو تہائی اکثریت سے منظور کیا ہے۔یہ میثاق جمہوریت کی روح کےمطابق ہے۔انہوں نے بتایا کہ چاروں صوبوں اور اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھی اس میں نمائندگی دی گئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ مشترکہ کمیٹی میں اس پر غور ہوا،وہاں اس اہم اور حساس معاملہ میں اپنی آرا سے اپوزیشن کی جانب سے نوازا جانا چاہیے تھا تاہم ایسا نہیں ہوا۔جمیعت علما اسلام کے ارکان نے اجلاس میں شرکت کی تاہم بعد ازاں انہوں نے پارٹی پالیسی کے تحت واک آئوٹ کیا۔انہوں نے کہا سوموٹو نوٹس سے ملک کے وزرا اعظم کو گھر بھیجا گیا،معاشی نقصانات اٹھانے پڑے،اس کو سینٹ سے منظور کردہ بل میں ختم کردیاگیا ہے۔ججز کے تبادلے کے حوالے سے آرٹیکل 200 کے تحت صدر مملکت کسی بھی ہائیکورٹ سے جج کا دوسرے ہائی کورٹ میں تبادلہ کرسکتے تھےجس کا تبادلہ جہاں ہونا ہے دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس،چیف جسٹس پاکستان کی رضا مندی سے یہ تبادلے ہوتے تھے۔اب مباحثہ کے بعد اس آرٹیکل میں ترمیم ہوئی ہے۔ جوڈیشل کمیشن کو تعیناتی اور ریگولرائزیشن کرنے والے کمیشن کو تبادلہ کا اختیار دیا گیا ہے۔اگر کوئی اس تبادلہ سے انکار کرے گا اس کو ریٹائر تصور کیاجائے گا۔فیصلہ ہوجانے کے بعد، 209 کے بعد، سپریم جوڈیشل کونسل اس کے خلاف انکار پر کارروائی کرسکے گی۔انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 84 کے تحت آئینی عدالت کے اختیارات وہی ہوں گے جو آئینی بنچ کے پاس تھے۔199 کے تحت ہائی کورٹس میں رٹ پٹیشنز پر جاری آرڈرز کی حدود بھی آئینی عدالت کا منتقل کئے گئے ہیں۔التوا میں پڑے فوجداری، دیوانی، ٹیکس،سے متعلق و دیگر 60، 62 ہزار مقدمات سپریم کورٹ ہی سنے گی۔سپریم کورٹ کے پاس ان مقدمات کو سننے کے لئے وقت بھی ہوگا اور توجہ بھی ہوگی۔ان دونوں عدالتوں کے چیف جسٹس صاحبان میں جو سینئر ہوگا وہ جوڈیشل کمیشن کی صدارت کرے گا۔انہوں نے بتایا کہ یہ ابہام کہ سینئر چیف جسٹس کون ہوگا اس کو بھی اس ترمیم میں مدنظر رکھ کر حل کیا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں سینیٹ کے انتخابات میں تاخیر ہوئی جس کی مختلف وجوہات تھیں،ایک سال دو ماہ کی تاخیر ہوئی۔سینیٹ کی مدت 6 سال ہے،اس تاخیر سے انتخاب اور مدت کا تعین کیاگیا۔243 مسلح افواج کے سربراہان کے بارے میں ہے۔مئی 2025 میں پاکستان پر ہمسایہ ملک نے بلا اشتعال حملہ کیا،قوم نے یک زبان ہو کر مسلح افواج کا ساتھ دیا اور ایک تاریخی کامیابی حاصل ہوئی،اس کی پذیرائی دنیا بھر میں ہوئی،او آئی سی، گلف،چین، سعودعرب،ترکیہ،آذربائیجان نے ہمارا ساتھ دیا۔امریکی صدر سمیت دنیا کی لیڈر شپ نے ہماری مسلح افواج کی کارکردگی کی تعریف کی۔قوم کے بہادر سپوت چیف آف آرمی سٹاف کوکو مشاورت سے ان کی کارکردگی،حکمت عملی،بہادری پر فیلڈ مارشل کا اعزاز سے نواز گیا۔بھارت کی جانب سے پہلگام فالس فلیگ پر پاکستان پر حملہ کا خدشہ تھا اس کا بھرپور جواب دیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ آرمی چیف کی تقرری وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت کی منشا سے کی جاتی ہے۔فیلڈ مارشل ایک تاحیات عہدہ ہے،پارلیمان ایک مقتدر ادارہ ہے،پاکستان کے عوام کا یہ منتخب ایوان ہی قائد ایوان کا انتخاب کرتا ہے۔قومی ہیروز کو اس قسم کے ٹائٹل واپس لینے کا اختیار کسی فرد واحد کانہیں بلکہ یہ اختیار پارلیمان کو دیا گیا کہ وہ جوائنٹ سیشن میں اس کا فیصلہ کرے۔انہوں نے بتایا کہ صدر کو تاحیات استثنا دنیا میں ملتا ہے،اس ترمیم کے بعد پاکستان میں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہیں یہ استثنا حاصل ہوگا۔ہم نے اس پر مشاورت کی،منظوری میں کوئی جلدبازی نہیں کی۔پوری کوشش کی کہ ہم سب کو اعتماد میں لے کر چلیں۔مشترکہ کمیٹی میں گھنٹوں اس پر غور ہوا ہے۔27 ویں ترمیم میں 59 ترامیم میں سے اکثریت آئینی ہیں اس پر اس ایوان میں سیر حاصل بحث کرائی جائے اور پھر اس کو منظور کرایا جائے۔انہوں نے اتحادی جماعتوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے رہنمائی اور معاونت کی۔انہوں نے اپوزیشن سے استدعا کی وہ بردباری سے اس بحث میں حصہ لیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button