کالمز

دو کہانیاں

عنوان: دو کہانیاں
تحریر کنندہ: محمد احسان غوث

بر صغیر پاک و ہند کے وجود سے 1947 میں دو آزاد اور خودمختار ممالک معرض وجود میں آئیں۔اور دونوں ممالک نے ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔ خلائی پروگرام اور کمیونیکیشن سیٹلائٹ کی افادیت اور اس کی دفاعی عمل میں مداخلت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان نے 1961 میں اپنے خلائی پروگرام کا آغاز کیا ۔ اور اس طرح پاکستان خلائی پروگرام شروع کرنے والے پہلے 10 ممالک میں شامل ہو گیا تھا۔ اس خلائی پروگرام کو ڈاکٹر عبدالسلام (نوبل انعام یافتہ) کی سپیس اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) کے چیئرمین کے طور پر تقرری کے بعد شروع کیا گیا تھا۔سپارکو نے 80 کی دہائی میں پاکستان کے میزائل پروگرامز میں کافی کردار ادا کیا ہے۔لیکن اس وجہ سے خلائی پروگرام سست روی کا شکار ہو گیا۔1990 میں سپارکو نے Badr-I کے نام سے اپنا پہلا سیٹلائٹ چائنہ سے لانچ کیا۔1999 میں اپنا سیٹلائٹ اور لانچ سٹیشن بنانے کا اعلان کیا تھا جس کا ابھی تک کوئی خاطر خوا نتیجہ نہیں نکل سکا۔سپارکو کا موجودہ بجٹ تقریبا 25 ملین ڈالر ہے ۔ناموافق اقتصادی اور سیاسی ماحول کے ساتھ ساتھ علاقائی عدم استحکام اور دیگر عوامل کی وجہ سے یہ پروگرام زیادہ رفتار سے بڑھ نہ سکا۔ دوسرا ملک بھارت جس نے 1969 میں یعنی پاکستان سے تقریباً آٹھ سال بعد اپنے پہلے خلائی پروگرام کا آغاز کیا۔ڈاکٹر سارا بھائی کو ہندوستانی خلائی پروگرام انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) کا بانی کہا جاتا ہے۔ISRO نے ہندوستان کا پہلا سیٹلائٹ آریہ بھٹا بنایا۔ جسے 1975 میں سوویت خلائی ایجنسی نے لانچ کیا تھا۔ 1980 میںISRO نے سیٹلائٹ RS-1 کو اپنی SLV-3 پر لانچ کیا، جس سے ہندوستان ساتواں ملک بنا جو آربٹل لانچ کرنے کے قابل ہے۔2017 میں اسرو نے ایک راکٹ کے ذریعے 104 سیٹلائٹ لانچ کرنے کا ریکارڈ بھی بنایا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کے 2023-24 کے بجٹ میں مختلف خلائی سرگرمیوں کے لیے 1600 ملین ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔14 جولائی کو لانچ ہونے والا چندریان -3 چندریان پروگرام کے تحت تیسرا اور حالیہ چاند کی سطح کی تلاش کا مشن ہے ۔ چندریان۔3 اگست کے آخر میں چاند کی سطح پر لینڈ کرے گا۔اس مشن کے کامیابی پر سوویت یونین، امریکہ اور چائنہ کے بعد چوتھا ملک بھارت ہوگا جس نے چاند کی سطح پر لینڈ کیا۔یہ دو کہانیاں سننے کے بعد ہر ذہن میں کچھ سوالات تو اٹھتے ہیں آخر کیا وجہ ہے کہ وہ پاکستان جس نے بھارت سے آٹھ سال پہلے خلائی پروگرام شروع کیا مگر وہ چندریان۔3 جیسا چاند کی تلاش کا مشن خلا میں بھیجنے کے قابل کیوں نہ ہو سکا۔یہ جانتے ہوئے کہ کمیونیکیشن سیٹلائٹ دفاعی نظام میں قابل اعتماد روابط کے لیے کتنی اہمیت کے حامل ہیں کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دفاعی میدان میں مضبوط ملک ہیں؟ اگر ان سوالوں کے جوابات منفی میں ہیں تو اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے خلائی تحقیقاتی انڈسٹری کو کم از کم اتنی ترقی تو دیں کہ نوجوان نسل کی اس میدان میں دلچسپی حاصل کر سکیں ۔اور گزشتہ سالوں کی کوتاہیوں کا جائزہ لینے کے بعد خلائی منصوبوں کی ترقی میں حائل رکاوٹوں سے چھٹکارا پا کر اپنے دفاعی نظام کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button