کالمز

بچوں کی تربیت میں والدین کا کردار


تحریر: صوفیہ حفیظ چشتی
میرے پاس کثیر ماؤں کا آناجانا ہوتا ہے کیونکہ میں بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیتی ہوں۔ اکثر والدین بچوں کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمارے بچے نماز ادا نہیں کرتے، قرآن پاک پہ توجہ نہیں دیتے، دینی کاموں میں شامل نہیں ہوتے، ہمارا حکم نہیں مانتے ہے۔ جب یہ شکایت سن کر اس کی تحقیق کی جاتی ہے۔ تقریباً پچاس فیصد غلطی والدین کی ہوتی ہے۔ ہم مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ جن ماؤں نے بچوں کی شکایت کی۔ جب ان سے انکی روزانہ کی مصروفیت جانا چاہی۔ تو معلوم ہوا کہ رات کو ہم دو تین بجے سوتے ہیں۔ صبح ہم سے نماز کے لیے نہیں اٹھا جاتا ہے۔ اس سے کچھ دیر بعد جب سکول کا وقت ہوتا ہے تب جیسے تیسے بچے کو جگا لیا جاتا ہے۔ کہ سکول سے چھٹی نہیں کرنی ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ سکول باقاعدگی سے جانا چاہیے۔ لیکن سکول کے ساتھ ساتھ اگر انہیں یہ بھی سیکھایا جائے کہ سکول جانا لازم ہے سکول کے بغیر تعلیم حاصل نہیں کی جاسکتی سی طرح بچے کو یہ بھی سیکھایا جاتا کہ نماز اور قرآن پاک کے بغیر ہماری تعلیم نامکمل ہے۔ اگربیس منٹ بعد سکول بھیجنے کے لیے اٹھایا جا سکتا ہے تو کچھ وقت پہلے مسجد کےلئے نماز کےلئے قرآن پاک کےلئے بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ اگر والدین خود اپنا معمول ترتیب دے جس میں رات کو عشاء کی نماز ادا کرکے کچھ اذکار مکمل کرکے جلدی سونے کا معمول ترتیب دیں گے بچوں کو تو اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔ جب بچہ رات کو جلدی سوئے گا اس کی صحت کےلئے بھی بہتر عمل ہوگا جب صبح نماز کےلئے اٹھے گے تو صبح کی تازہ ہوا سے انسان کا دماغ تروتازہ ہوجاتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں راوی روایت کرتا ہے کہ
"ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، کہا ہم سے عوف اعرابی نے، کہا کہ ہم سے ابوالمنہال سیار بن سلامہ نے، انہوں نے کہا کہ میں اپنے باپ سلامہ کے ساتھ حضرت ابوبرزہ اسلمی ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان سے میرے والد صاحب نے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ فرض نمازیں کس طرح (یعنی کن کن اوقات میں) پڑھتے تھے۔ ہم سے اس کے بارے میں بیان فرمائیے۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ هجير (ظہر) جسے تم صلوٰۃ اولیٰ کہتے ہو سورج ڈھلتے ہی پڑھتے تھے۔ اور آپ ﷺ کے عصر پڑھنے کے بعد کوئی بھی شخص اپنے گھر واپس ہوتا اور وہ بھی مدینہ کے سب سے آخری کنارہ پر تو سورج ابھی صاف اور روشن ہوتا۔ مغرب کے بارے میں آپ نے جو کچھ بتایا مجھے یاد نہیں رہا۔ اور فرمایا کہ عشاء میں آپ ﷺ تاخیر پسند فرماتے تھے۔ اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد بات کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ صبح کی نماز سے جب آپ ﷺ فارغ ہوتے تو ہم اپنے قریب بیٹھے ہوئے دوسرے شخص کو پہچان لیتے۔ آپ ﷺ فجر میں ساٹھ سے سو تک آیتیں پڑھتے تھے۔”
اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ رات کو عشاء کی اذان ہونے کے کچھ وقت بعد نماز عشاء ادا کریں اور بغیر بات کئے سو جائیں۔ اگر والدین اپنے ان غلطیوں پر قابو پالیں ۔تو یقننآ یہ پیچیدہ مسائل خوش اسلوبی سے حل ہو سکتے ہیں ۔ والدین سے بچوں کی تربیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا حدیث مبارکہ سے واضح ہے کہ
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خبردار سن لو! تم میں سے ہر شخص اپنی رعایا کا نگہبان ہے اور (قیامت کے دن) اس سے اپنی رعایا سے متعلق بازپرس ہوگی ١ ؎ لہٰذا امیر جو لوگوں کا حاکم ہو وہ ان کا نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق بازپرس ہوگی اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا ٢ ؎ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے اولاد کی نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا غلام اپنے آقا ومالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا، تو (سمجھ لو) تم میں سے ہر ایک راعی (نگہبان) ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھ گچھ ہوگی ۔
وضاحت: ١ ؎: کہ تو نے کس طرح اپنی رعایا کی نگہبانی کی شریعت کے مطابق یا خلاف شرع۔
٢ ؎: کہ شوہر کے مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی اور اس کے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کی یا نہیں۔ لہذا بچوں کی تربیت کرتے ہوئے وہ نکات خودیاد رکھے جو آپ بچے کو سیکھانا چاہتے ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ آپکا بچہ نمز ادا کریں آپ اپنا معمول بنائے صبح جلدی اٹھنے کا نماز ادا کرنے کا صبح کی سیر کرنے کا، آپکو دیکھ کر دو چار دس دن میں بچہخود ہی اٹھنا شروع ہوجایے گا۔ آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے بڑوں کی عزت کریں پہلے آپ خود اس پر عمل کریں کہ بچوں کے سامنے کسی بھی بڑے سے بدتمیزی سے بات نہیں کریں۔ اپنے بچوں کے سامنے اپنے والدین کی بےحد احترام کرنا چاہئے۔بچے ہر کام میں اپنے والدین کی نقل کرتے ہیں ۔جب آپ کو بچے اپنے والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری کرے دیکھیں گے ۔تو یقینا کل کو وہ بچے آپ کی فرمانبرداری کریں گے۔بچوں کو فرمانبردار بنانا ہے تو اپنے بڑوں کے فرمانبردار بنے۔ بچوں کے سامنے وہ عمل نہ کیجئے جو آپ بچوں کو نہیں سیکھانا چاہتے ہیں۔ اگر بچوں کی تربیت کرتے وقت والدین ان نکات پر عمل کریں۔تو اولاد انشاء اللہ معاشرے کے پروقار رکن بن سکتے ہیں ۔ آپکی اولاد آپکی عزت کریں گے آپکی فرمانبردار ہوگی۔اپنے بچوں کے سامنے کسی بھی قسم کی منشیات کے استعمال سے پرہیز کریں ۔اور بچوں کو ہمیشہ یہ نصیحت کریں۔کہ منشیات انسانی صحتِ کے لیے انتہائی مضر اور نقصان دہ ہے ۔جب آپ خود منشیات کا استعمال نہیں کریں گے ۔تو آپ کے بچوں کے منشیات استعمال کرنے کا چانس نہ ہونے کے برابر ہوگا. منشیات نشہ اور چیزوں کو گھر میں آنے کی گنجائش ہی نہ رکھیں۔ انکے ساتھ اپنا وقت گزارے تاکہ وہ کسی دوسری طرف متوجہ نہ ہو اور نہ ہی کسی غلط انسان کی باتوں میں آکر اپنی زندگی برباد کریں۔ اپنے بچوں کے سامنے گالم گلوج سے پرہیز کریں۔بچے جیسی گفتگو آپ کے منہ سے سنے گے ویسی ہی بیان کریں گے۔ بچوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ جو ہم کہہ رہے ہیں اسکا مطلب کیا ہے لیکن انہوں نے کسی بڑے کو کہتے سنا ہوتا ہے وہ ویسے ہی کہتے رہتے ہیں۔ خود اچھے اور صاحب کردار لوگوں کے محفل کا انتخاب کریں ۔انسان کے اچھا یا برا ہونے کا دارومدار سو فیصد اس کے محفل والوں پر ہوتا ہے۔یاد رکھیں۔کہ آپ صرف روٹی کھلانے والی ماں اور صرف کمانے والا باپ نہیں ہیں ۔بلکہ آپ وہ استاد ہے جو بچے کی غلطی پہ اسے ڈانٹتا ہے اور اس کے اچھے کام پہ اسکی تعریف بھی کرتا ہے ۔ آپ آیک استاد اور بہترین رول ماڈل بنے ۔جب آپ کے کردار قابل تقلید ہونگے تو بہترین قابلِ فخر والد اور والدہ بھی ہونگے۔آپ بچوں کے ایک سال سے لیکر دس سال تک والد یا والدہ ہیں ۔دس سال سے پچیس سال تک اپنے بچوں کے دوست اور سہیلی کا کردار ادا کریں ۔کیونکہ دس سال سے پچیس سال تک آپ کے بچوں کو اچھے دوست اور سہیلی کی ضرورت ہوتی ہے ۔اور یہ کردار آپ احسن طریقے سے ادا کرکے آپ اپنے بچوں کو معاشرے کا کار آمد رکن بنا سکتے ہیں ۔ورنہ یہ دوست اور سہیلی کا کردار کوئی مطلب پرست ادا کرکے آپ کے بچوں کے زندگی کو برباد کر سکتے ہیں ۔ہمیشہ اپنے بچوں سے دوستانہ رویہ رکھیں ۔ذیادہ سے ذیادہ وقت اپنے بچوں کو دیں۔ہمشہ ان کی حوصلہ آفزائی کرتے رہیں ۔اور کبھی بھی اپنے بچوں کو کسی دوسرے کے بچوں کے ساتھ انکا موازنہ نہ کریں۔اپ کا دیا ہوا حوصلہ آپ کے بچوں کا کل سرمایہ ہے۔ اگر والدین اپنی ذمہ داری کا احساس کرلیں کہ بچوں کو ضروریاتِ زندگی کے علاؤہ انکے والدین کے وقت کی بھی ضرورت ہے تو یقیناً بچے کسی الگ سمت میں نہیں جائیں گے۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمام والدین کو اپنی زمہ داری احسن انداز سے سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے اورہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثمہ آمین یارب العالمین
والسلام

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button