کالمز

کیا ہم آزاد ہیں


"کیا ہم آزاد ہیں”

تحریر:
زینب اعظم


"آزادی کا مطلب بے لگام ہوجانا نہیں بلکہ آزادی سے آپ پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اب آپ کو ایک منظم و منضبط قوم کی طرح رہنا ہوگا۔” یہ الفاظ ملت و قوم کے پاسبان قائد اعظم محمد علی جناح نے 1948ء میں ڈھاکا یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے کہے تھے۔ اس قول کی روشنی میں اگر اردگرد نظر ڈالی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ہم آزاد ہو کر بھی آزاد نہیں ہیں۔ بقول شاعر:
حقیقت میں نہیں آزاد ہم آزاد ہو کر بھی
ہماری فکر پر اغیار کی تحویل باقی ہے
جب ہمارا پیارا پاکستان آزاد ہوا تھا اس وقت ہمارے امانت دار اور زیرک نظر رہنما قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا شروع کیا۔ اس دور میں پاکستانی کرنسی اتنی مضبوط تھی کہ ڈالر اس کے بعد آتا تھا، اس وقت معیشت بہت مضبوط اور جذبے سلامت تھے۔
بقول شاعر:
اس سے پہلے تھی اسیری بھی رہائی جیسی
اب کے آزادی میں حال ہے اسیروں جیسا
اب دور حاضر پر نظر دوڑائیں تو ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ قائد اعظم کی وفات کے بعد جو مسائل ملک کو درپیش تھے وہ آج بھی ہیں۔
قائد اعظم کے جانے کے بعد ملک آہستہ آہستہ تنزلی کی طرف بڑھنے لگا۔ کچھ خیانت دار رہنماؤں اور کچھ سودی نظام کے حکومت میں داخلے کے سبب ملک پستی کی طرف بڑھنے لگا۔ اس وقت بھی وطن عزیز کو بہت سے مسائل درپیش ہیں، جو آزادی کے بعد سے اب تک چلے آرہے ہیں۔ ان میں سے چند مسائل اور ان کے حل کے لیے اقدامات کیے جائیں تو اکثر مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ مظلوموں کو انصاف کا نا ملنا، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو آج تک حل نہیں ہوا۔ قائد اعظم خود ایک بہت اچھے منصف حاکم تھے مگر آپ کی زندگی نے آپ کے ساتھ وفا نا کی، اور آپ کے جانے کے بعد رشوت اور سفارشات کی وجہ سے ظالم کو شہ ملی اور مظلوم کا حق چھینا گیا۔ اس کے علاوہ غربت کی چکی میں پستے ہوئے لوگ مسلسل پستے رہے اور کچھ شاطر لوگ بھیک مانگنے کو اپنا پیشہ بنا کر لوگوں کو لوٹتے رہے۔ تعلیمی نظام میں اخلاقیات کی کمی نظر آتی ہے۔ ہمارا تعلیمی معیار نسلوں کو رٹو طوطا بنا رہا ہے، جب کہ یہ نسل اگر رٹے نا مارے تو بہت سے میدان فتح کرسکتی ہے۔ اس طریقہ کار سے طالب علم کی شخصیت کو زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی صلاحیتیں ختم ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ ایک سب سے بڑا مسئلہ اختلاف کا ہے۔ ہمارے پیارے وطن میں اکثر لوگ ہر بات میں اختلاف کرتے ہیں۔ تو سب مسائل کو اگر متفق اور متحد ہو کر حل کیا جائے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کا شمار ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں ذہنی غلامی سے نکلنا ہوگا اور ایک اپنا پلیٹ فارم تشکیل دینا ہوگا جس پر چل کر ہم اپنے پاکستان کو دنیا کی نظر میں بہترین اور باصلاحیت ثابت کرسکیں۔ بقول شاعر مشرق:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button