کالمز

میٹھی عید

میٹھی عید

تحریر: رانا ابوبکر

رمضان کے مہینے کی بھوک و پیاس،ریاضتوں اور لذات نفس کی مشقتیں برداشت کرنے کے بعد کھانے پینے  سے رخصت ملنے پر جو دلی خوشی ہوتی ہے ، اسی طرح دن کا روزہ، رات کی تراویح خدا تعالی کی جانب سے توفیق فراوانی پر جو خوشی مسلمانوں کو حاصل ہوتی ہے، شرعی دائرے میں رہتے ہوئے اسی خوشی کے اظہار کا نام ” عید الفطر  ہے”عیدالفطر دراصل بہت سی خوشیوں کا مجموعہ ہے۔ ایک رمضان المبارک کے روزوں کی خوشی، دوسری قیام شب ہائے رمضان کی خوشی، تیسری نزول قرآن، چوتھی لیلۃ القدر اور پانچویں اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لئے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے آزادی کی خوشی۔عید صرف علامتی خوشی اور رواجی مسرت کا دن نہیں ؛ بلکہ مذہبی تہوار ، ملی شعار اور  عبادتوں کے بدلے کا دن ہے۔شوال کی پہلی تاریخ کو "عید الفطر”کہا جاتا ہے۔لفط "فطر” لغت میں کسی چیز کے کھلنے اور کھولنے کو کہا جاتا ہے۔

مسلمانوں کا آپس میں "عید مبارک” کہنا گرم جوشی سے ایک دوسرے سے نہ صرف ملنا بلکہ آپس میں مرد حضرات کا مردوں سے بغل گیر ہونا رشتہ داروں اور دوستوں کی آؤ بھگت کرنا عید کی رسومات میں شامل ہے۔ علاوہ ازیں بڑے بوڑھے بچے اور جوان نت نئے کپڑے زیب تن کرتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں، ایک دوسرے کی دعوت کرتے ہیں۔ مختلف قسم کے کھانے پکائے جاتے ہیں اور جگہ جگہ میلے ٹھیلے منعقد ہوتے ہیں ؛ جن میں اکثر مقامی زبان اور علاقائی ثقافت کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔ خصوصی طور پر مسلمان صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے بیدار ہوتے ہیں اور نماز فجر ادا کرتے ہیں پھر دن چڑھے ایک مختصر ساناشتہ یا پھر کسی میٹھی چیز جیسے میٹھی سویاں، شیر قورمہ یا کھجوریں کھانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں جو کہ ایک طرح سے اس دن روزہ کے نہ ہونے کی علامت ہے۔ مسلمانوں کی ایسے مواقع پر اچھے بیانئے لباس زیب تن کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جبکہ نئے اور عمدہ لباس پہن کر مسلمان اجتماعی طور پر عید کی نماز ادا کرنے کے لیے مساجد؛ عید گاہوں اور کھلے میدانوں میں جاتے ہیں۔ نماز عید میں آتے اور جاتے ہوئے آہستہ تکبیریں کہنا اور راستہ تبدیل کرنا سنت ہے۔ عید کے روز غسل کرنا ، خوشبو استعمال کرنا، اور اچھالباس پہنا سنت ہے۔
ہر نماز کے ادا کرنے سے پہلے اذان کا دیا جانا اور اقامت کہناضروری ہے مگر عید کی نماز کو اذان اور اقامت سے مستی رکھا گیا ہے جبکہ اس نماز کی صرف دو رکعات ہوتی ہیں پہلی رکعت میں ثناء کے بعد اور دوسری رکعت میں قرآت سورت کے بعد ہاتھ اٹھا کر تین تین زائد تکبیریں مسنون ہیں۔ عید الفطر کی نماز کے موقع پر خطبہ عید کے علاوہ بنی نوع انسانیت کی بھلائی اور عالم اسلام کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں جس میں اللہ تعالی سے کو تاہیوں اور گناہوں کی معافی مانگی جاتی ہے اللہ تعالی سے اسکی مدد اور رحمت مانگی جاتی ہے۔

قرآن پاک میں سورہ انفطار کی آیت إِذَا السَّماءُ انْفَطَرَتْ” میں لفظ انْفَطَرَتْ” اسی باب سے ہے۔ نیز کہا جاتا ہے کہ "تَفَطَّرَتْ” اور انْفَطَرتْ” اسی طرح "افطار” و "عید فطر” بھی اسی باب سے ہیں کیونکہ روزہ دار مغرب اور عید فطر کے دن اپنا منھ کھانے اور پینے کے لئے کھول دیتا ہے۔ اور عید الفطر کی رات یعنی چاند رات کو "ليلة الجائزة "اور عید الفطر کے دن کو ” یوم الْجَوَائِزِ” یعنی انعامات و بدلے کا دن ,حدیث میں کہا گیا ہے ۔
حضرت ابن عباس سے موقوفاً مَروی ہے :”يَوْمُ الْفِطْرِ يَوْمُ الْجَوَائِزِ“
عید کا دن ”یوم الجَوَائِز“یعنی انعام ملنے والا دن ہے۔(کنز العمال :24540)

نبی کریمﷺ اس دن کو مذہبی تہوار قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ”إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا“  (بیشک ہر قوم کیلئے عید کا دن ہوتا ہے اور یہ ہمارا عید کا دن ہے۔(بخاری:952)

اللہ تعالی عید الفطر کے دن فرشتوں کو گواہ بناکر روزہ داروں کی مغفرت فرمادیتے اور ان کے گناہوں کو سیئات سے بدل دیتے ہیں، چنانچہ روزہ دار عید گاہ سے بخشے بخشائے واپس ہوتے ہیں۔عید کا دن جہاں خوشی و مسرت کے اظہار اور میل ملاپ کا دن ہوتا ہے۔ اور وہاں ہی عید الفطر کی رات بڑی فضیلت اور برکت والی ہے، یہ انعام کی رات اور اللہ تعالی سے مزدوری لینے کی رات ہے، اس رات میں اللہ تعالی کی جانب سے اپنے بندوں کو رمضان کی مشقتوں ، قربانیوں اور ریاضتوں کا بدلہ دیا جاتا ہے، دعائیں مقبول ہوتی ہیں ، جنت واجب ہوتی ہے ، دل کو روحانی زندگی نصیب ہوتی ہے۔  وہاں عید کی رات میں کی جانے والی عبادت کی فضیلت عام دنوں میں کی جانے والے عبادت سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے عید کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:حضور نبی اکرم ﷺ نے دو دنوں فطر اور اضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔اور پھر ان تمام خوشیوں کا اظہار صدقہ و خیرات جسے صدقہ فطر کہا جاتا ہے۔ تاکہ عبادت کے ساتھ انفاق و خیرات کا عمل بھی شریک ہو جائے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر اسے مومنوں کے لئے ’’خوشی کا دن‘‘ قرار دیا گیا۔ خوشی ومسرت کے موقع پہ اسلام نے غریبوں کا خاص خیال رکھنے کا حکم فرمایا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:  فرض رسول الله زكوة الفطر وقال أغنوهم في هذا اليوم۔غریبوں کی اس دن مالی مدد کرو ۔صدقہ فطر مالی انفاق ہے جس کا حکم حضورنبی اکرم ﷺ نے زکوٰۃ سے پہلے اس سال دیا جس سال رمضان کا روزہ فرض ہوا۔ صدقہ فطر غریبوں اور مسکینوں کو دیا جاتا ہے۔ اس کو فطرانہ بھی کہتے ہیں۔ اس کا ادا کرنا ہر مالدار شخص کے لئے ضروری ہے تا کہ غریب اور مسکین لوگ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔
اگر کوئی شخص صدقہ فطر کسی وجہ سے عید کے روز ادا نہ کر سکا اور بعد میں ادا کیا تو اس کا شمار قضا میں نہیں ہوگا۔ صدقہ فطر کسی وقت بھی ادا کیا جائے وہ ادا ہی ہو گا۔

عید ک دن اتحاد واتفاق کا ہمہ گیر پیغام ، غرباء ومساکین کے ساتھ ہمدردی وغمگساری کا مظہر ، انہیں اپنی خوشیوں میں شامل کرنے کا عملی مظاہرہ ,پر مسرت موقع پر اعتدال وتوازن کی انوکھی مثال،  اسلامی، روایات،  اقدار،  تہذیب وشائستگی کا خوبصورت جشن، مہینہ بھر کی جسمانی ریاضتوں پہ ﷲتعالی سے انعامات لینے، گناہوں,غلطیوں اور مولا کی نا فرمانیوں سے پاک و شفاف ایک نئی زندگی گزارنے کیلئے ﷲ تعالی سے تجدید عہد کا دن ہے۔ گناہوں کی بخشش کروانے کا حسین دن، اپنے اعمال کا جائزہ لینے ، اخوت، بھائی چارگی،  تحمل مزاجی، مساوات انسانی ، سماجی ہم آہنگی ،بھوکوں،  مظلوموں اور بدحالوں کی داد رسی اور ان کے دکھ درد میں تڑپ اٹھنے کا جذبہ پیدا کرنے کا دن ہے، خدا ہمیں عید کی حقیقی خوشیوں ، مسرتوں اور پیغام سے مالا مال فرمائے۔ آمین ثمہ آمین۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button