کالمز

"علامہ اقبال”

تحریر: شاہدہ پروین


ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں اقبالؔ اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں
علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء کو سیال کوٹ میں پیدا ہوۓ۔آپ کو بچپن سے ہی پڑھنے لکھنے کا بے انتہا شوق تھا۔آپ روزانہ قرانِ پاک کی تلاوت کرتے۔ آپ کو خاتم النبیین حضرت محمدﷺ اور صحابہؓ سے بہت محبت تھی۔علامہ اقبال نے انٹر تک تعلیم سیال کوٹ سے حاصل کی پھر لاہور آ گئے۔یہاں بھی آپ نے دل لگا کر پڑھا اور ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے شوق نے آپ کو جرمنی پہنچا دیا۔علامہ اقبال ہمارے قومی شاعر ہیں۔آپ نے اپنی نظموں کے ذریعے اسلام کا پیغام دنیا تک پہنچایا۔آپ نے ہمارے لئیے ایک آزاد وطن کا خواب دیکھا تھا، جو اللہ کے حکم سے 14اگست 1947ء کو پورا ہوا۔ آپ نے بچوں کی بہت سی نظمیں لکھیں،جن میں خاص طور پر بچے کی دعا جسے روزانہ اسکول شروع ہونے سے پہلے پڑھا جاتا ہے۔
” لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری”
” زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری "
علامہ اقبال نے اپنی نظموں کے ذریعے نصیحت کی کہ اللہ تعالیٰ کو تکبر اور بڑائی پسند نہیں اس لئیے اور کسی کو بھی حقیر اور کم تر نہیں سمجھنا چاہئیے۔
علامہ اقبال نے اپنی شاعری کو دینی خدمات، اعلیٰ انسانی جذبات و احساسات ہمت اور جرات تشہیر کا ذریعہ بنایا یہی وجہ تھی کہ ان کی شاعری نہ صرف اس دور میں پھیلی بلکہ آج تک وہ شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں مسند نشین ہے۔ اقبال کی طرز شاعری نادرونایاب ہے۔ انداز سخن نہ ان سے پہلے کوئی شاعر اختیار کر سکا نہ ان کے بعد یہ بات ممکن ہوسکی۔ اسی لیے ممتاز صحافی و ادیب اور نقاد سجاد میر اقبال کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
"اقبال اپنی طرز شاعری کے بانی بھی تھے اور ہاتم بھی”
اب دیکھیے ایسا منفرد شعر صرف اقبال ہی کہہ سکتا ہے۔
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق
علامہ اقبال مشرقی اقدار کے پرستار تھے۔ وہ مشرقی تہذیب کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے نزدیک مغربی علم حاصل کرنا تو ضروری تھا۔ وہ مغربی لباس اور مناسب مغربی طور طریقے اختیار کرنے کے مخالف بھی نہ تھے۔ تاہم یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ مسلمان پوری طرح مغربی رنگ میں رنگ کر اپنی تہذیب و ثقافت کو بھی ترک کر دیں۔ روح مشرق کا یہی اضطراب ان کی شاعری میں نمایاں ہے فرماتے ہیں۔
تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
میری دانش ہے افرنگی مرا ایمان ہے زناری
یہ بات تو مصدقہ اور طے شدہ ہے کہ اقبال کی شاعری کا بنیادی مقصد اسلام کی تبلیغ اسلامی اقدار کا فروغ اور مسلمانوں کو ان کے عہد رفتہ کی یاد دلاکر انہیں روشن مستقبل کے حصول کے لیے آمادہ کرنا تھا انہوں نے اپنے اکثر اشعار میں کسی نہ کسی حوالے سے اسلام کی عظمت کو بیان کیا ہے۔ اقبال کا پیغام تھا کہ مسلمان ہر شعبہ زندگی میں اسلامی اصولوں پر عمل کریں۔ ان کا پیغام اسلام کا پیغام تھا فرماتے ہیں۔
اقبال کا پیغام ہے اسلام کا پیغام
اسلام کا پیغام زمانے کو سنا دو
رسول خدا احمد مجتبیٰ،محمدﷺ سے اقبال کو والہانا عشق تھا حضرت محمدﷺ کی کی محبت اقبال کے رگ و پے میں سمائی ہوئی تھی۔ ان کے نزدیک عشق رسول کے بغیر توحید کا اقرار بے معنی ہے۔ کیونکہ خداوند کریم تو خود اپنے حبیب محمدﷺ سے محبت کرنے پر زور دیتا ہے۔
اقبال فرماتے ہیں۔
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں۔
علامہ اقبال نےامتِ مسلمہ کو یہ پیغام دیا کہ اگر وہ تقدیر بنانے کے خواہش مند ہیں تو خود میں قرون اولی کے مسلمانوں جیسا جذبہ پیدا کریں اور اسی ہمت و جرات سے کام لے کر تلوار اور ڈھال سنبھالیں اور کفر و باطل کا خاتمہ کرنے کے لئے میدان میں آ جائیں۔
علامہ اقبال نے یہ دعا بھی کی۔
عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہ مسلماں کو تلوار کردے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button