کالمز

"سوڈان اور پاکستان میں اقتدار کے حصول کی جنگ”



تحریر: اعجازعلی ساغر اسلام آباد


Twitter: @SAGHAR1214



پچھلے دنوں برطانوی ڈپٹی وزیراعظم ڈومینک راب نے اپنے عملے پر دباؤ ڈالنے کے الزامات کے بعد استعفیٰ دے دیا ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے اپنے دفتری عملے کیساتھ نامناسب رویہ اختیار کیا ہے اور انہیں زدو کوب کیا ہے استعفیٰ دینے کے بعد بھی ان پر تنقید جاری ہے اور وہ انکوائری کا سامنا کررہے ہیں,اسی طرح کچھ عرصہ پہلے نیوزی لینڈ کی دبنگ وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے یہ کہہ کر استعفیٰ دیدیا کہ اب ان میں نئے چیلنجز کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہے وہ نئی قیادت کو موقع دینا چاہتی ہیں ان کا کہنا تھا کہ ان کی نظر میں نیوزی لینڈ کی خوشحالی و ترقی اقتدار سے زیادہ ضروری ہے,اسی طرح سابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے بطور وزیراعظم اپنے ایک امیر کزن کی ضمانت پر ایک بنک سے آٹھ لاکھ پاؤنڈز قرض لیا ان کا کہنا تھا کہ بطور وزیراعظم میری تنخواہ 13 ہزار پاؤنڈ ہے جس سے وزیراعظم کے منصب پہ گزارا نہیں ھورہا تھا کیونکہ اسٹیٹس کے حوالے سے بھی خرچے بڑھ گئے تھے بورس جانسن وزیراعظم بننے سے پہلے ڈیلی ٹیلی گراف میں کالم لکھتے تھے جس سے انہیں ماہانہ بیس ہزار ڈالر ملتے تھے جبکہ بطور مہمان کہیں اسپیکر جانے پر بھی بھاری معاوضہ ملتا تھا جو وزیراعظم بننے کے بعد بند ھوگیا۔


یہ گورے عجیب پاگل لوگ ہیں وزیراعظم بن کر بھی بنکوں سے ادھار لیتے پھرتے ہیں جبکہ ہماری طرف کوئی ایک بار ایم پی اے بن جائے تو اسکی سات نسلیں عیاشی کرتی نظر آتی ہیں کیا بیوروکریٹ کیا ججز,جرنیل الغرض جس کا بھی داؤ لگا ہے اس نے نہیں چھوڑا۔ آج مغربی ممالک اور یورپ ھم سے کیوں آگے ہے اسکی وجہ یہی ہے کہ وہاں قانون اور اداروں کا احترام ہے اور قانون سے کوئی بالاتر نہیں ہے لیکن ھمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ ہم شراب کو شراب ثابت نہیں کرسکتے وہ بھی شہد بن جاتی ہے۔
آج کل سوڈان میں آرمی اور پیرا ملٹری فورسز میں اقتدار کے حصول کیلئے لڑائی جاری ہے جس میں سینکڑوں بے گناہ شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں سوڈان کی ہسٹری کے متعلق آپ سب مجھ سے اچھی طرح واقف ھوں گے سمجھ لیں دوسرا پاکستان ہے ان دونوں ممالک کے حالات اس وقت ایک جیسے ہی ہیں سوڈانی فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البریان اور پیرا ملٹری فورسز کے سربراہ جنرل محمد حمدان دگالو کے درمیان اقتدار کی جنگ نے معصوم سوڈانیوں کی لاشیں سڑکوں پر بکھیر دی ہیں خرطوم شہر سے لوگوں کا انخلاء شروع ھوچکا ہے وہاں کے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ خرطوم کی سڑکوں اور گلیوں میں لاشیں ہی لاشیں دکھائی دیتی ہیں جن کو ابھی تک اٹھایا نہیں گیا جسکی وجہ سے ہر طرف تعفن پھیلا ھوا ہے اقتدار بہت بری چیز ہے یہ انسان کے حواس کھا جاتا ہے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ھوکر رہ جاتی ہے یہی کچھ سوڈان میں ھورہا ہے 2021 میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جنرل عبدالفتاح اور جنرل محمد حمدان نے ملکر اپنے دشمنوں کو ختم کیا اور پھر اقتدار کے مزے لوٹنے لگے جب آرمی چیف عبدالفتاح (جوکہ موجودہ صدر بھی ہیں) کو جنرل حمدان (جوکہ عبدالفتاح کے نائب ہیں) کے حد سے تجاوز کرنے کی شکایات مسلسل موصول ھونے لگیں تو انہوں نے اقتدار عوامی نمائندوں کو سونپنے کا فیصلہ کیا جسکی محمد حمدان نے شدید مخالفت کی اور پھر اسی اقتدار کیلئے دونوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑگیا۔
سوڈان کے حالات بھی پاکستان سے مختلف نہیں ہیں یہاں بھی زیادہ آمریت نے اقتدار کے مزے لوٹے ہیں اور قدرتی وسائل سے مالا مال اس ملک کو حکمرانوں نے کنگال کرکے رکھ دیا ہے۔
ادھر پاکستان بننے سے لیکر آج تک مسائل میں گھر ھوا ہے قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے بعد ایک نہ ختم ھونیوالی طویل داستان ہے ھم ماضی میں نہیں جاتے صرف حال کا ہی ذکر کرتے ہیں کہ اس وقت ایکدوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے والے اقتدار کیلئے اکٹھے ھوگئے ہیں ملک میں عملاً آئین ختم ھوچکا ہے اگر اس کا اطلاق ہے تو وہ صرف اور صرف عام اور غریب آدمی کیلئے رہ گیا ہے ان سیاستدانوں نے اداروں کو بھی متنازعہ بنادیا ہے کہاں ڈومینک راب,جیسنڈا آرڈرن اور بورس جانسن جیسے سیاستدان اور کہاں ھمارے علی بابا چالیس چور, ھمارے سیاستدانوں کو ملک کی کم اور اپنی نسلیں سنوارنے کی زیادہ فکر ہے اس وقت آپ ایک نظر موجودہ سیاستدانوں پر ڈالیں تو آپ پر ساری صورتحال واضح ھوجائے گی۔
ملک اس وقت آئی ایم ایف کے قدموں میں پڑا ہے قرض کی بھیک مانگ رہا ہے مہنگائی ایشیاء کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے کھانے پینے کی عام اشیاء بھی لوگوں کی قوت خرید سے باہر ھوچکی ہیں ھمیں مطالعہ پاکستان میں پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان دنیا کا ساتواں بڑا زرعی ملک ہے اور اس زرعی ملک کے پاس کھانے کو گندم نہیں ہے لوگ آٹے کے حصول کیلئے لمبی قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں دنیا میں تیل کی قیمتیں کم ھورہی ہیں میری قوم کو ہر پندرہ دن بعد اضافے کا ٹیکہ لگادیا جاتا ہے دوسری ضروریات زندگی کی تمام اشیاء عام تو عام اب متوسط طبقہ کی قوت خرید سے بھی باہر ہیں لیکن یہ ھمارے سیاستدانوں کا مسئلہ نہیں ہے ھمارے سیاستدان اپنی اولاد کے مستقبل کیلئے پریشان ہیں ہر کوئی اپنی اولاد کو اپنی جگہ تخت نشیں دیکھنا چاہ رہا ہے یہاں بھی سوڈان کی طرح اقتدار کیلئے کولڈ وار جاری ہے بس فرق یہ ہے کہ وہاں براہ راست گولہ باری ھورہی ہے اور اس سے عوام مررہی ہے اور یہاں بھوک,افلاس,عدم انصاف,بیروزگاری اور مہنگائی کے میزائلوں اور بموں سے عوام کو مارا جارہا ہے وہاں بھی اقتدار کو طول دینے کیلئے لڑائی جاری ہے اور یہاں بھی اقتدار کی طوالت کیلئے گھمسان کا رن پڑا ہے دونوں طرف لاشیں ہی لاشیں نظر آرہی ہیں سوڈان میں مردہ لاشیں بکھری پڑی ہیں اور پاکستان میں جہاں دیکھیں آپ کو زندہ لاشیں نظر آئیں گی۔
ھم اپنے قیام سے لیکر اب تک نہیں سیکھے اور شاید سیکھنا بھی نہیں چاہتے آپ کبھی کسی پیشہ ور بھکاری کی زندگی کا جائزہ لیں اسکو آپ سونے کا محل بھی ڈال کر دیدو وہ بھیک مانگنا نہیں چھوڑے گا ھماری حالت بھی کچھ اس طرح کی ہے ہمیں اب مانگنے کا مزہ آنے لگا ہے ھم سے یہ روش اب ترک نہ ھوگی۔
کاش کوئی ھمیں بھی ماوزے تنگ جیسا لیڈر مل جائے جو ھماری سوئی آتما کو جگا دے یا ان جیسے باقی لیڈران مل جائیں تاکہ ھم بھی پستی سے بلندی کی طرف جائیں۔
میری اپنی نوجوان نسل سے اپیل ہے خدارا آپ جاگ جاؤ اور ملک کی باگ دوڑ خود سنبھال لو ورنہ یہ اپنی نسلیں سنوارنے والے یونہی تمہاری نسلوں کی لاشیں گراتے رہیں گے۔
رب کریم سے دعا ہے اے مالک میرے ملک سمیت تمام امت مسلمہ پر رحم فرما اور ھمارے حالات ٹھیک کردے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button