کالمز

حقوق بیوہ

عروج فراز …
آپ میں جس معاشرے کا حصہ ہیں یہاں 70 فیصدایک المیہ ھے کے کوئی بھی عورت اگر بیوہ ہوجاتی ھے تو مطلب اسکی زندگی ختم اسے خوش رھنے کا اختیار نہیں وہ اچھا لباس نہیں پہن سکتی وہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتی وہ سے بات تک کرنے کی حقدار نہیں اور وجہ کیا بیوگی دوسرا جیسا کے ہمارے ملک میں نظام تعلیم اتنا مضبوط نا تھا نہ ھے کے پورا معاشرہ اس تعلیم سے روشناس ہو کے بیوہ بھی ایک جیتی جاگتی انسان ھے اسکا بھی دل ھے وہ بھی اسی معاشرے میں اک عام خواتین جیسی ذندگی کی تمنا کرتی ھے لیکن بد قسمتی سے ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا اسکے برعکس ہماری فسودہ رسومات اور بڑوں کی سوچ بیوہ کو یہ طعنے دے دے کر مارا جاتا کے یی اہنے شوہر کا سر کھا گئی حالانکہ موت زندگی کا اختیار صرف اس زات کو ھے جو دلوں کے حال سے واقف ھے بیوہ سسرال میں ھے تو ساس کے طعنے اور اپنے بیٹے کو رونا کیا وہ کسی کی بیٹی نہیں؟بیوہ اگر میکے میں ھے تو بھابھی بھائی نظرانداز کیا وہ اسی گھر کی بیٹی نہیں جس کی وراثت بھی سمبھالے بیٹھے رہتے ہیں الغرض بیوہ عورت کو کہیں وہ مقام نہیں ملتا جو اسکے شوہر کی زندگی میں اسے حاصل ہوتا ھے معاشرہ حاندان اسکو الگ نظر سے دیکھتا ھے اسکو بد قسمتی کے طعنے دے کر اندر اندر ہی دبوچا جاتا ھے اور رہی بات بیوہ کے بچوں کی یعنی کے یتیم تو باپ کے جاتے ہی بھائیوں میں وراثت کے جھگڑے اور بیوہ کو بولنے تک کا اختیار حاصل نہیں ہوتا اسے بچوں سمیت میکے بھیج دیا جاتا ھیکہ یہاں تمھارا کچھ نہیں اور میکے میں کچھ عرصے بعد اسے وی ہی دھکے نصیب ہوتے ہیں جب تک ماں باپ ذندہ ہوں رہ لیتی لیکن انکے گزر جانے کے بعد وہ لاچار ہوجاتی بے بس ہوجاتی ہمیں یہ سوچ رکھنی چاہیئے کے بیوہ کو بھی دوسری شادی کا اختیار دو اسے یہ حق ہمارا مذہب دیتا ھے لیکن معاشرے میں اسے غلط گناہ تصور کیا جاتا ھے اسکے بر عکس کسی آدمی کی بیوی فوت ہو تو چہلم میں ہی وہ دوسرا نکاح کر لیتا ھے اگر بچے ہوں تو انکو سامنے رکھ کے بچے نہ ہوں تو وہ حق سمجھتا اپنا ایسی سوچ عورت کے لیے بھی رکھیں اسے بھی جینے کا اختیار دیں بیوہ سے حسن سلوک روا رکھیں نہ کے تنگ دست معاشرے میں اسے بری نظر سے دیکھیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button