کالمز

گستاخانہ مواد کی روک تھام اہم سب کی ذمہ داری

تحریر: رفیع شہزاد


گستاخانہ مواد کی روک تھام ہم سب کی ذمہ داری ہے۔پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصہ سے انتہائی منظم طریقے سے سوشل میڈیا کے ذریعے اللہ رب العزت ، رسول اکرم ، اہل بیت ،اطہارو ازواج رسول ، اصحاب رسول، قرآن پاک اور مذہبی مقدسات کے ساتھ ساتھ ملکی اور وطنی احترام کی علامات جیسا کہ قومی پرچم وغیرہ کی بھی تو ہین کی جارہی ہے گستاخیوں کے لیے نہایت سنگین قسم کی صورتیں بھی اختیار کی جا رہی ہیں جیسا کہ مسلمانوں کی مقدس شخصیات کے اسمائے مبارکہ اور اسی طرح قرآن مجید کی آیات اعضائے تناسلیہ پر لکھتے ہیں، قومی پرچم کی تصویر بناتے ہیں اور پھر بدکاری کی ویڈیوز اور تصاویر بنائی جاتی ہیں، اس سارے مواد کو مخصوص ایپس (Apps) کے ذریعے منظم طریقے سے مختلف ویب سائٹس اور مخصوص گروپوں میں مشتہر کیا جاتا ہے، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ کسی مغربی ملک میں نہیں بلکہ وطن عزیز پاکستان میں ہو رہا ہے جو ایک مسلمہ طورپر اسلامی ریاست ہے۔ ایف آئی اے سائبر کرائم نے ان گھناو¿نے جرائم میں ملوث اب تک جن افراد کو گر فتار کیا ہے، ان میں ڈاکٹرز، پروفیسرز، انجینئیر ز، چارٹرڈ اکاو¿نٹنٹ ، وکیل، عالم دین، حافظ ، نعت خواں ، سجادہ نشیں، سرکاری ملازم، پرائیویٹ ملازم، امیر، غریب، ریڑھی بان ، غرض ہر طبقہ اور ہر مسلک کے لوگ موجود ہیں۔پاکستان میں اس وقت 10 کروڑ سے زائد لوگ سوشل میڈ یا استعمال کر رہے ہیں۔یہ برائی کتنی تیزی سے پھیل رہی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ چار افراد نے مل کر 2019 میں بلاسفیمی (Blasphemy) کا ایک گروپ بنایا۔ 2022 میں ایف آئی اے سائبر کرائم نے ان چاروں کو گر فتار کر لیا لیکن جب وہ گرفتار ہوئے تو اس گروپ کے ممبران کی تعداد 32 ہزار سے زائد ہو چکی تھی۔ ان سنگین جرائم پر قابو پانا چند افراد کے بس کی بات نہیں، حکومتی اداروں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی، میڈیا اور اس سے وابستہ لوگوں کا فعال کردار بھی اس سلسلے میں انتہائی اہم ہے اوراس کے لیے پوری قوم کو کردارادا کرنا ہو گا۔اس سلسلے میں درج ذیل اقدامات کارگر ثابت ہو سکتے ہیں!
•میڈیا کے ذریعے جہاں ایسے مواد کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے، وہیں پاکستان کے متعلقہ قوانین اور حکومتی سطح پر موجود گستاخانہ مواد کے سد باب کے انتظام سے متعلق عوامی آگاہی بھی بہت ضروری ہے۔ تاکہ عوام الناس ایسے کسی بھی مواد کے حوالے سے انتہائی احتیاط سے کام لیں۔

  • میڈیا اس معاملے میں والدین کے لیے بھی خصوصی مہم چلائے کہ موجودہ حالات میں والدین کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے، جو والدین اپنے بچوں کو موبائل ، لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کرتے ہیں ، وہ اس بات پر بھی نظر رکھیں کہ ان کے بچے سوشل میڈیا پہ کیا دیکھتے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ بچے نادانی میں بے حیائی کے رستے پر چل پڑیں، اور فحش ویڈیوز سے ہوتے ہوئے گستاخی تک نہ جا پہنچیں۔
    •سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے اس دور میں سیرت نبوی کے انسانیت وشرافت اور مکارم اخلاق پر مشتمل پیغام کو نہایت موثر انداز میں پیش کریں ، تحریری، تقریری، چھوٹے چھوٹے کلپس وغیرہ کی شکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و مکارم کو مختلف زبانوں میں پیش کیا جائے، تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرامن اور قابل احترام شخصیت کے قابل اقتداء پہلو ونمونے اجاگر ہوں ، اس طرح اس موقع کو خصوصا سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عام وتام کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
    •آزادی اظہار رائے کے درست استعمال اور اس کی آڑ میں کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کی دل آزاری اور انہیں تکلیف پہنچانے کی سنگینی سے متعلق آگاہی کو عام کیا جائے۔ مذہب ، مذہبی مقدسات اور شخصیات کی توہین کو عالمی طور پر ناقابل قبول عمل قرار دینے کے لیے رائے عامہ ہموار کی جائے۔ یقینا اس طرح مذہبی انتہاءپسندی اور تشدد کا راستہ بھی مسدود ہو گا۔
    •عالمی طور پر خصوصا مغرب میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کے لیے اسلام کی حقیقی تشریح کے لیے اقدامات کیے جائیں اور اس سلسلے میں علماءواسکالرز کی آرا¿ وخیالات سے استفادہ کیا جانا ضروری ہے۔
    •قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مذہبی شخصیات کے تعاون سے مقدسات اور شخصیات کی توہین اور اس کی نشر واشاعت سے متعلق شعور وآگاہی پیدا کی جائے کہ ایسے جرائم کے مرتکب لوگوں کے لیے ملکی قوانین میں کیسی سخت سزائیں موجود ہیں۔ اسی طرح یہ تعلیم وآگاہی بھی پیدا کی جائے کہ ایسے کسی بھی واقعہ کی صورت میں عوام قانون کو ہاتھ میں لینے کی بجائے قانون کے مطابق کاروائی کو یقینی بنانے کی کوشش کریں۔ فرط جذبات، اشتعال اور کسی بھڑکاوے میں آ کر ہر گز قانون اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔
    •سوشل میڈیا میں کسی بھی جگہ اگر کوئی گستاخانہ مواد نظر آئے تو ہر گز شیئر یا کسی کو فارورڈ نہ کریں بلکہ اسے پی ٹی اے کو ای میل https://complaint.pta.gov.pk/RegisterComplaint.aspx پر ای میل کرپں یا ایف آئی اے کو اس ایڈریس پر complaints@fia.gov.pk ای میل کریں یاہیلپ لائن 051-111-345-786 پر شکایت درج کرائیں یا وزارت مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی کو بذریعہ ای میل ایڈریسreportblasphemytomora@gmail.com پریا وٹس ایپ نمبر0306-3332555 پر فوری اطلاع دیں۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق پروگرام ٹیلی کاسٹ کیے جائیں تاکہ عبادات واخلاق ، معاملات ومعاشرت میں اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا کر حقیقی مسلمان کا کردار پیش کر کے اس گستاخی کا بخوبی سدباب کیا جا سکے۔
    مذہب سے متعلق جرائم کو سب سے پہلے ہندوستان میں موجود برطانوی حکمرانوں نے 1860 میں کوڈ کیا تھا ، اور 1927 میں اس میں توسیع کی گئی تھی۔ پاکستان کو یہ قوانین وراثت میں ملے جب یہ 1947 میں تقسیم ہند کے بعد وجود میں آیا۔انگریزوں کی طرف سے بنائے گئے اس قانون میں مذہبی اجتماع میں خلل ڈالنا، قبرستان میں گھسنا، مذہبی عقائد کی توہین کرنا یا جان بوجھ کر کسی جگہ یا عبادت گاہ کو تباہ کرنا یا اس کی بے حرمتی کرنا جرم قرار دیا گیا تھا۔ ان قوانین کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا جرمانے کے ساتھ یا اس کے بغیر ایک سال سے لے کر 10 سال تک قید ہے۔1980 کی دہائی کے دوران توہین مذہب کے قوانین کو کئی قسطوں میں تشکیل دیا گیا اور اس میں توسیع کی گئی۔ 1980 میں اسلامی شخصیات کے خلاف توہین آمیز تبصرہ کرنا جرم قرار دیا گیا تھا جس کی زیادہ سے زیادہ سزا تین سال قید تھی۔1982 میں ایک اور شق میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی "جان بوجھ کر” بے حرمتی کرنے پر عمر قید کی سزا مقرر کی گئی تھی۔ 1986 ء میں پیغمبر اسلام کے خلاف توہین رسالت کی سزا دینے کے لئے ایک علیحدہ شق شامل کی گئی تھی اور اس ترتیب میں "سزائے موت یا عمر قید” کی سفارش کی گئی ۔
    بلا شبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات وصفات مسلمانوں سمیت ساری دنیا کے لئے تاقیام قیامت اسوہ حسنہ کا بہترین نمونہ ہے، اگر صحیح طور پر ساری انسانیت پیغمبر اسلام کی تعلیمات اور اسوہ حسنہ کو زندگی کے ہر شعبہ میں اپنائے تو دنیا سے فتنہ وفساد، ، دھوکہ دہی ، جعل سازی اور ناانصافی کا خاتمہ ہوجائے ، نتیجتاً ساری دنیا امن وآشتی کا نمونہ بن جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ایک مومن اور مسلمان کا جزو ایمان ہے ، حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم، عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر تکمیل ایمان ممکن ہی نہیں ہے اورمسلمان اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاءو رسل کے لیے بلاامتیاز تقدس و احترام کا عقیدہ رکھتے ہیں، کسی بھی نبی و رسول کی توہین و گستاخی کو قابل تعزیر جرم گردانتے ہیں اور اس حوالے سے تمام ادیان و مذاہب کے پیروکاروں سے اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ کوئی بھی فرد ان بزرگ و برتر شخصیات کی شان میں کسی قسم کی توہین کا ارتکاب نہ کرے۔ مسلمانان عالم آزادءاظہار رائے کے قائل ہیں تاہم عقیدہ میں شامل مقدس و محترم شخصیات کی توہین کو آزادی اظہار رائے نہیں سمجھتے ہیںکیونکہ آزادی اس حد تک تسلیم کی جا سکتی ہے کہ جب تک دوسرے کے جذبات کو مجروح نہ کیا جائے اور ایسا بیانیہ یا انداز کہ جس سے دنیا میں انتشار وافتراق کی کیفیت کو بڑھاوا حاصل ہو، آزادیءاظہار کے خلاف ہے، خود انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس سے متعلق نازیبا گفتگو آزادی اظہار رائے کے زمرے میں نہیں آتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کے اعتدال پسند اسلاموفوبیا کو درست نہیں سمجھتے اور اس کی روک تھام پر زور دیتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button