کالمز

پاک وطن کی مٹی کا عاشق

*پاک وطن کی مٹی کا عاشق*
*اقصی ساقی(کراچی)*

وطن کی مٹی عظیم ہے تو…
عظیم تر ہم بنارہے ہیں….
گواہ رہنا گواہ رہنا…….
13 اگست کی ٹھنڈی میٹھی سہ پہر کو اندرون لاہور کی گلیوں میں معمول سے ہٹ کر شور تھا جگہ جگہ آزادی پرچم پیجیز اور جھنڈیوں کے اسٹالز لگ چکے تھے ساتھ ہی بڑے بڑے اسپیکر سسٹم میں آزادی کے نغمے لگے ہوئے تھے بچے جھنڈیوں کو دھاگے میں پروئے پوری گلی کو سجانے میں مشغول تھے کچھ نوجوان چائنا کی سبز اور سفید لائٹوں سے گلی کو روشن کرنے کی کوشش میں ہلکان ہورہے تھے گھروں کے بڑے والد بھائی دادا لوگ بچوں کی خوشی میں خوش ہورہے تھے ہر چہرا مسکرارہا تھا فقط ایک چہرے کے جو گلی کے نکڑ پر بنے چھوٹے سے مکان کی کھڑکی سے سب کو دیکھ رہا تھا لیکن باوجود کوشش کے اس کے جھریوں سے بھرے چہرے پر مسکراہٹ کے بجائے اذیت تھی کوئی کرب تھا جو اسے منفرد بناتا تھا وہ بوڑھا شخص نہ جانے کس کرب میں تھا لیکن ہاں یہ تو طے تھا کہ اس کا کرب بہت بڑا تھا جس سے وہ نکلنے میں کبھی کامیاب نہ ہوسکا تھا۔
14اگست2023 کا سورج طلوع ہوچکا تھا اور پاکستان کا 76 چشن ہر جگہ منایا جارہا تھا "شاھین بابا” کی عمر آج 86 سال ہو چکی تھی یعنی شاھین بابا نے اپنی آنکھوں سے برصغیر پاک و ہند کو تقسیم ہوتے دیکھا تھا اسی وجہ سے اس دن ان کی آنکھوں سے آنسو نہیں رکتے تھے محلے کا پر بڑا چھوٹا ہی ان سے 14اگست کو ملنے آتا تھا بلکہ باقاعدہ طور پر بیٹھک لگا کرتی تھی اور شاھین بابا سے فرمائش کی جاتی کہ وہ آزادی کی کوئی کہانی سنائیں اور شاھین بابا بہت شوق سے مغموم لہجے اور نم آنکھوں سے انہیں آزادی کی کہانی سنایا کرتے تھے ۔
آج بھی ظہر کے بعد شاھین بابا کے پاس محلے کے سارے بچے بوڑھے نوجوان جمع کو کر گئے اور شاھین بابا سے خواہش کہ ہمیں آزادی کی کوئی کہانی سنائیں شاھین بابا کی عمر چونکہ 86 سال ہو چکی تھی بوڑھے ہو چکے تھے کچھ آزادی میں بچھڑے اپنے عزیزوں کا دکھ اتنا کرتے تھے کہ مزید بوڑھے لگنے لگے تھے آواز میں نقاہت آگئی تھی سمجھ مشکل سے آتا تھا لیکن ہر بڑا چھوٹا شوق سے ان کی بات سمجھنے کی کوشش کرتا تھا آج بھی شاھین بابا نے اپنے جھریوں ذدہ ہاتھوں سے اپنی نم آنکھوں کو صاف کیا اور کپکپاتی ہوئی آواز میں بتانے لگے ۔
"14اگست1947 کو جب یہ خوش خبری ملی کہ پاکستان آزاد ہوگیا ہے اب مملکت اسلامیہ الگ ہے ہم ہندؤں سے الگ اپنے ملک میں آزاد رہ سکتے ہیں اب نماز روزہ سب کچھ ہم اپنی مرضی سے کریں گے کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی تو اس دن ہم سب بہت خوش تھے ہمارا گھر پانچ نفوس پر مشتمل تھا میں میری مائی جان (امی) میرے ابا جان اور چھوٹی سی ڈیڑھ سال کی بہن عائشہ اور اس سے بڑا بھائی پانچ سال کا خداداد تھا ہم پانچھوں اپنی زندگی میں پہلی بار کھل کر مسکرائے تھے اس دن اپنا گھر بغیر پابندی کے رہنے کا تصور بہن کے محفوظ مستقبل کا خوبصورت خواب پڑھ لکھ کر اپنے ملک کو مزید ترقی دینے کا خواب لئے ہم سب ہی ہندوستان سے ہجرت کرنے کے لئے تیار تھے 15اگست کی شام ہم گھر سے ہجرت کیلئے نکلے ہم نے چھ بجے والی ریل گاڑی میں سوار ہونا تھا ہم نے اپنے ساتھ صرف ایک بکسہ لیا جس میں ہمارے پہننے والے کپڑے اور کچھ ضروری سامان تھا اپنا پیار سے بنایا گیا گھر چھوڑنے پر دل اداس تھا گھر سے نکلتے ہوئے بار بار پیچھے مڑ کر ویران گھر کو دیکھتے رہے تھے اس گھر کی ہر اینٹ میں ہم سب کی محبت دکھائی دیتی تھی ان اینٹوں پر لگے گارے میں میرے باپ کا پسینہ بھی شامل تھا ہم سببے انتہا غمگین تھے اور ہمارے ابا جان جیسے مضبوط انسان کی آنکھوں میں بھی اس دن اپنی بچپن کی حسین یادوں کو چھوڑنے پر نمی تیر رہی تھی جسے وہ بار بار کندھے پر پڑے صافے سے خشک کررہے تھے لیکن یہ خیال بار بار مطمئن کردیتا تھا کہ ہم اپنے پاک ملک میں آزاد رہنے کے لئے جارہے ہیں” شاھین بابا نے مغموم لہجے میں بتاتے ہوئے اپنی نم آنکھوں کو دوبارہ سے رومال سے صاف کیا اور پھر آگے بولنے کیلئے لب کھولے لیکن اسی وقت گلی کے چھوٹے بچے نے باجا بجایا تو بابا نے ناگواری اور غم کی ملی جلی کیفیت سے سامنے بچے کو دیکھا اور کہنے لگے "تمھارے گھر میں کوئی مرجائے اور تم اسے یاد کررہے ہو اس لمحے کوئی تمھارے سامنے باجا بجائے یا ڈھول تو تمھیں اچھا لگتا ہے اللہ کے بندوں ؟” بابا کی بات سن کر بچے کے باپ نے شرمندگی سے سر جھکالیا اور بچے سے باجا لے لیا جس پر بچے نے حیرت سے باپ کو دیکھا لیکن باپ کی سنجیدہ صورت دیکھ کر بچہ روتے ہوئے گھر بھاگ گیا اس ساری کاروائی کے دوران شاھین بابا مکمل خاموش تھے اور بغور اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہے تھے پھر تھوڑے وقفے کے بعد دوبارہ بابا گویا ہوئے۔
"ہمارا پورا خاندان ٹرین پر سوار خوشی خوشی اپنی منزل کی جانب سفر طے کررہا تھا کہ شام کے گہرے پڑتے سائے ارد گرد خاردار جھاڑیاں اور اس میں چلتی ریل کی آواز عجیب ہی خوفناک ماحول پیدا کررہی تھی جب اچانک ہندو بنیوں نے ہماری ٹرین پر دھاوا بول دیا میں اس وقت دس سال کا صحت مند بچہ تھا جوانی کی آمد تھی تو جوش اور ہمت سے کام لیتے ہوئے میں نے مائی کا ہاتھ پکڑا اور عائشہ کو گود میں لیتے ہوئے چھپتے چھپاتے چلتی ریل گاڑی سے کود پڑا میں نے ابا جان کو کہا کہ خداداد چھوڑا ہے کود نہیں سکے گا آپ اسے کندھے پر لے کر کودنے کی کوشش کیجئے گا ریل کی رفتار چونکہ آہستہ تھی تو مجھے اور عائشہ کو تو زیادہ چوٹ نہ لگی لیکن مائی جان کافی زخمی ہوگئی تھیں میں وہیں جھاڑیوں میں چھپا ریل گزرنے کا انتظار کرنے لگا اور جب ریل وہان سے غائب ہوگئی تو مجھے یک دم خداداد اور ابا جان کا خیال آیا لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی مائی جان مسلل ابا جان اور خداداد کا نام لیتے ہوئے بے آواز رورہی تھیں میں دس سال کا بچہ اس وقت انہیں ٹھیک سے حوصلہ بھی نہ دے سکا اور پھر سویرے فجر کی روشنی ہوتے ہی ایک اور ریل وہاں سے گزرتی تھی لیکن وہ ریل وہاں سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر رکتی تھی کچھ دیر میں نے مائی کو حوصلہ دیا اور عائشہ کو کندھے پر اٹھا کر جھاڑیوں سے نکل کر چھپ کر چلنے کی کوشش کرنے لگا آدھے گھنٹے کا راستہ ہم تین زخمی اور کمزور لوگوں نے بہت مشکل سے طے کیا اور پھر پاکستان کی حدود شروع ہونے سے پہلے ایک اسٹیشن جہاں گاڑی رکتی تھی وہاں سے دوسری ریل میں سفر شروع کیا مائی رو رو کر نڈھال ہو چکی تھیں عائشہ بھی رو رو کر تھک چکی تھی گلا اسکا بیٹھ گیا تھا اور میں ابا جان اور خداداد کے ملنے کی امید میں ہی تھا شاید جو میں اتنی ہمت سے ان دونوں کو سنبھال رہا تھا آخر کار 17اگست کی شام کو ہم نے پاکستان کے ریلوے اسٹیشن پر قدم رکھا اور وہاں اترتے ہی ہمیں پتہ چلا کہ صبح پہنچنے والی ریل گاڑی کا کوئی مسافر زندہ نہیں بچا ہندو بنیوں نے سب کو شھید کردیا مائی جو پاکستان پہنچ کر حوصلہ کر گئی تھیں ایک بار پھر سے رونے لگیں اور عائشہ نے بھی اس وقت بھوک سے نڈھال ہو کر سر گرادیا” شاھین بابا ایک دم خاموش ہوئے تو ہر چہرے پر غم صاف دکھائی دیتا تھا اور کچھ کچھ آنکھوں میں آنسووں کے قطرے جمع ہوگئے تھے جو ہر انسان بہانے سے نہ جانے کیوں ڈر رہا تھا اور جو تھوڑے بڑے بزرگ تھے ان کے بوڑھے گالوں پر ایک پانی کی لکیر سی بن گئی تھی۔
"اسٹیشن کے قریب ہی ہجرت کرکے آنے والوں کیلئے مہاجر کیمپوں کا انتظام کیا گیا تھا وہاں مائی اور عائشہ کو طبی امداد دی گئی میں دس سال کا بچہ اچانک سے ہی 30 سال کا ذمہ دار نوجوان بن گیا تھا میں مضبوط ہونے کی کوشش کررہا تھا لیکن میرا دل ابا جان اور میرے پیارے بھائی خداداد کی جدائی برداشت نہیں کر پارہا تھا میں نے اسٹیشن سے نکلتے ہی مٹی کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور اسے بہت محبت سے چوما اس مٹی نے مجھ سے بہت بڑی قربانی لی تھی اس مٹی نے مجھ سے میرا بچپن لیا تھا اس مٹی نے میرا بھائی اور میرا باپ مجھ سے مانگا تھا میں کیسے اس مٹی کی قدر نہ کرتا جس مٹی نے میری مائی کی مسکراہٹ تو لے لی لیکن میرا اور میری پیاری بہن عائشہ کا مستقبل محفوظ کردیا تھا“ شاھین بابا نے آسودہ سی تھکی مسکراہٹ کے ساتھ بات ختم کی اور ہاتھ میں پکڑے رومال سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے اندر گھر کی طرف بڑھ گئے اور باقی سب لوگ بھی غم زدہ ہو کر شاھین بابا کے لئے دعا کرتے ہوئے گھروں کو لوٹ گئے ۔
17اگست کی صبح ہی اطلاع ہوئی کہ شاھین بابا کا انتقال ہوگیا ہے اور محلے کا ہر انسان ہی کہتا نظر آیا پاک وطن مٹی کا عاشق آج ہمیں اور ہمارے وطن کو چھوڑ کر اسی مٹی میں دفن ہونے چلا گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button