کالمز

”پیکا“ پڑ گیا پھیکا

کالم : ”پیکا“ پڑ گیا پھیکا
تحریر : محمد ریاض
بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد مسند اقتدار پر براجمان ہونے والی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف جس نے تبدیلی کے بلند و بالا نعرے اور نیا پاکستان بنانے کے دعوے کئے تھے مگر نئے پاکستان کے دعوے داروں نے چن چن کر روایتی سیاستدانوں اور پرانے پاکستانی حکمرانوں والے کام کئے کہ جن کے خلاف اس جماعت نے تبدیلی کا علم بلند کئے رکھا۔ نئے پاکستان کے معماروں نے تقریبا اپنے ہر کہے ہوئے بیان سے نہ صرف یوٹرن لیا بلکہ حد تو یہ ہے کہ یوٹرن لینے کو بھی اپنی عقل مندی اور تدبر سے تشبیہ دیا۔ بات کسی اور طرف چل نکلے گی، آتے ہیں اس وقت موجودہ حکومت کی جانب سے پیدا کئے گئے سنگین مسئلہ یعنی Prevention of Electronic Crimes Act, 2016 میں ترمیم کرنے کے لئے رات کے اندھیرے میں جاری کئے گئے صدارتی آرڈیننس کا مسئلہ۔ اس بل کو عرف عام میں ”پیکا قانون” بھی کہا جاتا ہے۔ نجانے اس حکومت کو ایسی کونسی مجبوریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ رات کے اندھیروں میں فیصلے لئے جاتے ہیں چاہے وہ پٹرول کی قیمتوں کا اعلان ہویا پھر بجلی کے ریٹس، اسی طرح حکومت کو پیکا قانون میں راتوں رات ترمیم کرنے کی سوجھی۔ پس منظر کی بات کی جائے تویقینا حکومت کی اس سوچ کے پیچھے نجی ٹی وی پر اک وفاقی وزیر کے حوالہ سے اک سینئر صحافی محسن بیگ کاریحام خان کی کتاب میں درج کچھ مندرجات کا حوالہ دینا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ ٹی وی پروگرام میں ریحام خان کی جس کتاب کا ذکر کیا گیا تھا وہ کتاب تو جولائی 2018 میں لندن میں شائع ہوئی تھی۔ جنوری 2022 تک جس کتاب کو پاکستانیوں کی اکثریت بھول چکی تھی حکومت کی پھرتیوں اور غیر دانشمندانہ ردعمل کی وجہ سے آج ریحام خان کی کتاب کو نئی زندگی مل چکی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے حکومت کو آرڈیننس کا مشورہ دینے والا حکومت وقت کا حمایتی نہیں ہے بلکہ وہ حکومت کا کھلا دشمن ہے۔ آج ریحام خان کی کتاب کا تذکرہ زبان زد عام ہوچکا ہے۔ اس آرڈیننس جاری ہونے کے بعد سیاسی جماعتوں، صحافی، وکلاء تنظیموں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کی جانب سے جیسا ردعمل دیکھنے کو ملا اس سے نہ صرف حکومت وقت کو شدید سبکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ شنید یہی کی جارہی ہے کہ عنقریب یا تو حکومت وقت کو اس آرڈیننس کو واپس لینا پڑے گا یا پھر عدالتوں کی جانب سے اس آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا جائے گا۔ حکومت کی جانب سے ہنگامی طور پر آرڈیننس جاری کرنے کی سمجھ ابھی تک نہ آسکی کہ جب سینٹ کا اجلاس 17 فروری تک جاری تھا تو اسی سیشن میں قانون کا ترمیمی بل سینٹ میں پیش کردیا جاتا جو کہ عین جمہوری عمل ہے وہاں پر بحث ہوتی اور بل کو منظور کروانے کی کوشش کی جاتی جیسا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ترمیمی بل کو پاس کروایا گیا اورجس طرح سینٹ چیرمین کے خلاف عدم اعتماد تحریک کو ناکام کروایا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ جب حکومت پاکستان کے پاس (نہ نظر آنے والی) گیڈر سنگھی ہے کہ سینٹ میں عددی برتری نہ ہونے کے باوجود بھی حکومت وقت زیادہ تر مواقعوں پر عددی برتری کی حامل اپوزیشن جماعتوں کوشکست دے دیتی ہے۔ باوجود اسکے کہ حکومت کے پاس (نہ نظر آنے والی) گیڈر سنگھی ہے سینٹ کے اجلاس کو 17 فروری کو ختم کرکے اگلے ہی دن صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ سے پیکا کے قانون میں ترامیم کرنے اور فی الفور نافظ العمل کرنے کی ایسی کونسی ضرورت پیش آن پڑی؟ بہرحال یہ بات تو طے شدہ ہے کہ آرڈیننس جاری کرنے کا مشورہ دینے والا اس حکومت کا خیر خواہ بالکل نہیں ہوسکتا۔ اگر حکومت وقت کے وزراء خصوصا جس مخصوص وفاقی وزیر کی جانب سے اعتراضات اور شکایت کی بناء پر پیمرا اور ایف آئی اے حرکت میں آتے ہیں، کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس کتاب کی مصنفہ یعنی ریحام خان جو کہ اس وقت پاکستان میں بھی موجود ہیں انکے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاتی اور جس طرح اک مشہور صحافی محسن بیگ کو دن دیہاڑے اک کمانڈو ایکشن کرکے گرفتار کیا گیا اسی طرح اس خاتون کو بھی گرفتار کرلیا جاتا۔ حکومت وقت کی جانب سے اس موقع پر برق رفتار مگر بے وقوفانہ ایکشن لینے کی بناء پر یہ ضرب المثل بہت حد تک سچ ثابت ہوچکی ہے کہ ”نادان دوست سے دانا دشمن بہترہے”۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں صحافیوں کی بڑی تنظیم پی ایف یو جے کی جانب سے پیکا آرڈیننس کے خلاف دائر درخواست پر سماعت جاری ہے اور یہ قوی امکانات موجود ہیں کہ عدالت عالیہ کی جانب سے اس آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا جائے گا۔ یاد رہے جب پرانے پاکستان میں پیکا اور اس جیسے دیگر بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جارہے ہوتے تھے تو پاکستان تحریک انصاف کی قیادت بشمول موجودہ صدر اور وزیراعظم صاحبان نے کھل کر ان بلوں کی مخالفت کی تھی اور انکے بیانات آج بھی سوشل میڈیا کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ (مئی 2017 میں عمران خان صاحب نے ٹویٹ کیا تھا کہ حکومت سائبر کرائم قانون کا غلط استعمال کر رہی ہے تاکہ پی ٹی آئی سوشل میڈیا کارکنوں کو دھمکیاں دے کریاگرفتار کر کے سیاسی طور پر نشانہ بنایا جا سکے۔ جمہوریت میں ناقابل قبول ہے)۔عمران خان صاحب کہا کرتے تھے کہ یہ 21 ویں صدی اور سوشل میڈیا کا دور ہے، اس میں آپ کسی پر پابندی عائد نہیں کرسکتے۔یاد رہے تحریک انصاف اس قانون کے ہمیشہ خلاف رہی تھی۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پرانی حکومت کے اس قانون کو ختم کیا جاتا لیکن حسب روایات جناب عمران خان صاحب نے اپنے پرانے بیانات پر یوٹرن لیتے ہوئے پرانی حکومت کے بنائے ہوئے بل میں مزید سختیوں کا اضافہ کردیا۔ حکومت کی غیر دانشمندانہ اقدام کی بناء پر پیکا قانون پھیکا پڑھتے ہوئے دیکھائی دے رہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button