کالمز

مرگ سیاہ

از قلم
اعسییم شاہین مشوانی (تربیلہ)
مرگ سیاہ Black Death
یہ بات سن ١٣۴۵ عیسوی کی ہے جب ایک ایسی وبا پھیلی جس نے تاریخ کے اوراق پر بد نما سیاہ دھبے چھوڑے اس وبا سے ہزاروں اور پھر لاکھوں کی تعداد میں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے تاریخ میں اس کا ذکر یوں کیا جاتا ہے کہ ایشیا سے ہونے والی جہاز رانی کے سبب یہ وبا یورپ تک پہنچ گئی اور پھر وہاں کروڑوں کی تعداد میں لوگوں کو نگل گئی اس وبا کو طاعون کا نام دیا گیا طاعون ایک ایسا تکلیف دہ وبائی مرض ہے کہ اس میں ایک پھوڑا بغل میں نکلتا ہے جس کے زہر سے بہت کم ہی انسان بچ پاتے ہیں اکثریت اس تکلیف کو برداشت نہیں کر پاتی اور زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں اس میں عموماً قے، غشی اور خفقان(دل کی دھڑکن بڑھ جانا) کا غلبہ رہتا ہے یہ بیماری سب سے پہلے چوہوں میں پھیلتی ہے اور پھر چوہوں سے انسانوں میں منتقل ہو جاتی ہے یہ ایک ایسا مرض ہے جو پسووں کے ذریعے پھیلتا ہے پسو ایک چھوٹا پردار کیڑا ہوتا ہے جو عموماً سرد اور مرطوب مقامات پر پایا جاتا ہے یہ کیڑا انسان اور جانوروں کا خون چوستا ہے جب یہ کیڑا طاعون زدہ چوہے کے جسم سے چمٹ کر اس کا خون چوس لیتا ہے تو اس طاعون زدہ چوہے کے جراثیم پسو میں منتقل ہو جاتے ہیں اور پھر جب یہ دوسرے انسانوں یا جانوروں کا خون چوستا ہے تو وہی طاعون کے جراثیم دوسرے انسانوں اور جانوروں تک منتقل ہو جاتے ہیں اور اسی طرح کثیر تعداد میں لوگ اس خطرناک مرض کا شکاشکار ہو جاتے ہیں۔
طاعون کی تین بڑی اقسام یا مراحل ہیں ۔ جن میں خیارکی طاعون ( Bubonic plague) انتانی طاعون ( seplicemic plague ) یا پھر پھیپھڑوں کا طاعون شامل ہے خیارکی طاعون میں مریض کے بغل یا جانگھ میں پھوڑا نمودار ہوتا ہے خیارکی طاعون میں مریض کے جسم میں موجود جرثومے اپنی تعداد بڑھاتے ہیں جب جرثومےاپنی تعداد بڑھا لیتے ہیں تو جسم کو شدید درد، کمزوری، قے ، تیز بخار جیسی کیفیات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس صورت میں طاعون اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے یعنی خیارکی طاعون اپنے اگلے مرحلے انتانی طاعون میں منتقل ہو جاتا ہے اگر دوسرے مرحلے میں مریض پر غور نہ کیا جائے تو طاعون اپنی سب سے خطرناک صورت میں منتقل ہو جاتا ہے جس میں جرثومے کے پھیپھڑوں پر حملہ آور ہونے کا خدشہ ہوتا ہے اور پھر اس صورت میں پھیپھڑوں کے نسیج سےخون کا اخراج ہوتا ہے جو اکثر کھانسی یا تھوک کے ساتھ خارج ہوتا ہے ۔ اس موذی وبائی مرض کا شکار تاریخ میں سب سے پہلےعرب کے مسلمانوں کو سامنا کرنا پڑا۔ ١٨ ہجری میں یہ موذی وبا پھیلی اور ہزاروں مسلم اور غیر مسلموں کو نگل لیا تاریخ انسانی میں انسان کو کئی ایسی مہلک اور جان لیواوباوں کا سامنا کرنا پڑا جس کی روک تھام مشکل رہی اور کروڑوں کی تعداد میں لوگ موت کا شکار ہو گئے ان وباوں نے دنیا کی تقریباً نصف آبادی کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔
جب طاعون نے کروڑوں انسانوں کو موت کےگھاٹ اتارا تھا تو اس وقت مختلف مذاہب کے الگ ذہنی نظریات وخیالات بن گئے کچھ مذاہب اسے عذاب الٰہی سمجھنے لگے عیسائی اور یہودی اس وبا کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ مسلمانوں کے غلطیوں کی وجہ سے پھیلی ہے ہر مذہب کا ایک الگ ذہنی خیال بن گیا جب کوئی وبا پھیلتی ہے تو وہ صرف جسموں کو ہی نہیں بلکہ لوگوں کے ذہنوں اور ان کے خیالات کو بھی متاثر کرتی ہے کیونکہ دماغ جسم کا وہ واحد حصہ ہے جس کے ذریعے ہم سوچتے ہیں دماغ ناگہانی آفات، وبائی امراض، اور خوفزدہ کر دینے والے حالات میں خصوصی طور پر متاثر ہوتا ہے جب سکون کا ماحول ہو تو انسان کی سوچ اور خیالات بھی پرسکون ہوتے ہیں مگر جب دہشت اور خوف کے حالات ہوں ہر جانب موت کا سماں ہو تو ذہن میں کئی خیالات گردش کرنے لگتے ہیں کوئی انسان وبائی مرض سے بہت بعد میں مرتا ہے مگر وہ ذہنی بے سکونی اور خوفزدہ حالات کی وجہ سے جلدی مر جاتا ہے۔
آج اکیسویں صدی میں طب کی دنیا میں نت نئے ایجادات اور دوائیں بنائی جا رہی ہیں آج جب کوئی وبایا انفکشن پھیلتا ہے تو اس پر کنٹرول پانا بہت آسان ہے کیوں کہ پرانے زمانے میں علاج روایتی طریقوں سے ہوتا تھا جس سے مرض خوف ناک صورت اختیار کر لیتا مگر آج کے دور میں جب کوئی مہلک مرض پھیل جائے تو طبی ماہرین
اور سائنسی حضرات اسی دم جدید آلات کے ذریعے اس کے پھیلاؤ، اسباب اور روک تھام کے تجربات کرنے لگ جاتے ہیں آج کے سائنسی دور میں بھی وبائی امراض کروڑوں انسانوں کی جان لے لیتے ہیں کیوں کہ وبائی مرض کی مثال جنگل میں بھڑکتے آگ کی مانند ہوتی ہے جب پھیل جائے تو لاکھوں جنگلی نباتات وحیوانات کو تباہ کر دیتی ہے اسی طرح وبائی امراض بھی ہیں انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے گردوپیش کو صاف رکھے پانی، خوراک، فضا اور اپنی جسمانی صفائی کا خصوصی خیال رکھے۔ ایسی گندگی اور کیڑے مکوڑے جس سے ماحول میں ان مہلک امراض کے پھیلنے کا خدشہ رہتا ہے ان سے ماحول کو بچائے رکھے کچھ امراض اور بیماریاں اللہ کی طرف سے آتی ہیں مگر کچھ امراض اور بیماریوں کا سبب خود انسان ہی ہے دنیا میں بہت سے نقصانات کا سبب خود انسان ہی ہے وہ خود اپنے لئے عذاب لاتا ہے اور پھر اپنی غلطیاں اللہ کی ذات پر اور دوسرے مخلوقات پر ڈال دیتا ہے جب تک انسان اپنے ہی پیدا کردہ نقصانات اور غلطیوں کو نہیں سمجھے گا تو دنیا اسی طرح مہلک وبائی امراض کا شکار ہوتی رہے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button