کالمز

خشک سالی کی تباہی سے بچاوکی تدبیرکریں


تحریر:صفدر علی خاں
پاکستان میں گزرتے وقت کے ساتھ پانی کی عدم دستیابی کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کررہا ہے ،چولستان کے بیشتر اور سندھ کے اکثر علاقے خشک سالی کا شکار ہیں ان علاقوں میں زندگی پانی نہ ملنے پر سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے ۔پاکستان میں مسلسل پانی کی کمی سے ہرطرف بدحالی کاآغاز ہورہا ہے ۔پاکستان کے صوبہ سندھ میں ان دنوں پانی نہ ملنے پر جانوروں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں ۔یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ سندھ کو اس کا جائز حق نہیں مل رہا ہے مگر اس مسئلے میں کافی قصور مقامی عوامل کا بھی ہے۔ اس وقت کوٹری بیراج سے منسلک اضلاع میں توصورتحال بہت گھمبیر شکل اختیار کر چکی ہے اور عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ زیر زمین پانی کڑوا اور زہریلا ہوچکا ہے۔ ربیع کی زیادہ تر فصلیں خراب ہوچکی ہیں جبکہ مال مویشی کے لیے بھی پانی دستیاب نہیں ہے۔‘دریائے سندھ پر انحصار کرنے والے آخری اضلاع سے لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ ‘زمنیں خالی پڑی ہیں، کسانوں اور زمینداروں کے گھروں کے چولہے بجھ رہے ہیں، لوگ مجبور ہو کر شہروں کا رخ کر رہے ہیں کہ وہاں پر محنت مزدوری کر کے اپنے خاندان کا پیٹ پال سکیں،سندھ کے اکثر علاقوں میں کسی زمانے میں کیکر کا درخت لگا کرتا تھا۔ ‘جب کبھی پانی کی قلت زیادہ ہوتی، کسان اور زمینداروں کو فصل میں کوئی نقصان ہوتا تو وہ کیکر کو کاٹ کر اپنی اور اپنے جانورں کی گزر بسر کر لیا کرتے تھے۔ مگر گزشتہ کئی برسوں سے اور خاص طور پر اس سال تو کیکر کے درخت بھی نہیں ہیں کیونکہ زمین بالکل خشک ہوچکی ہے۔‘زمیندار کہتے ہیں کہ ’ہمارے مال مویشی بھی مر رہے ہیں۔ ہم اپنے مویشیوں کو زہریلا زیر زمین اور گندا پانی پلانے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ کسی زمانے میں ہماری بھینس کی قیمت 5 لاکھ روپے ہوا کرتی تھی۔ اب اس کو کوئی ایک لاکھ میں بھی نہیں لیتا۔

ہماری بکری کبھی ہاتھوں ہاتھ تیس ہزار کی فروخت ہوا کرتی تھی۔ اب کوئی پانچ ہزار بھی دینے کو تیار نہیں ہے۔‘ادھر ارسا کے مطابق اس وقت ملک بھر میں دریاؤں اورڈیموں میں اوسط مجموعی قلت 38 فیصد ہے جس میں دریائے سندھ اور تربیلا ڈیم میں 13 فیصد، دریائے کابل میں 46 فیصد، دریائے جہلم اور منگلا ڈیم میں 44 فیصد، دریائے چناب میں 48 فیصد اور دیگر ذرائع میں یہ کمی 66 فیصد ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ سال خشک سالی اور برف باری کے حوالے سے بدترین رہا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سندھ میں اس وقت جو زراعت ہے یہ مکمل طور پر دریائے سندھ کی مرہونِ منت ہے۔ یہ کوئی آج کا نہیں بلکہ کئی سو سالوں کا معاملہ ہے۔ ‘مارچ، اپریل اور مئی کے آغاز میں پانی کا زیادہ انحصار برفباری پر ہوتا ہے۔ گلیشیئر پر موجود برف کا مئی کے بعد پگھلنا اور اس کا پانی دریاوں میں شامل ہونا شروع ہوتا ہے۔ اب ہوا یہ کہ سردیوں میں کم بارشیں ہوئیں اور برفباری بھی ریکارڈ ے کم ہوئی۔ جس کی وجہ سے مارچ اور اپریل میں پانی کم رہا تھا۔
جس کے سبب سندھ کی زرخیز زمینیں اب بنجر ہورہی ہیں ،شاعر بھی کمال لوگ ہوتے ہیں ان کا منطق بھی اپنی جگہ قدرت کے شاہکار فیصلوں کی عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے ۔
بقول شاعر !
زرخیز زمینیں کبھی بنجر نہیں ہوتیں
دریا ہی بدل لیتے ہیں رستہ اسے کہنا
درج بالا شعر میں حقیقت کھل کر بیان ہوئی ہے ،دریائوں کے رخ موڑنے پر ہی زرخیز زمینیں بنجر ہوتی ہیں ۔اس حقیقت کا اب سندھ کے کاشتکار بہت قریب سے مشاہدہ کررہے ہیں ۔خشک سالی نے زندگی کو معدوم کرکے رکھ دیا ہے ۔66لاکھ ایکٹرپر مشتمل علاقہ رواں ماہ سے بارشیں نہ ہونے کی بناء پر پانی کی شدید قلت سے دوچار ہے ۔یہاں چرند ،پرند ،جانور اور انسان پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں ۔95فیصد ٹوبے خشک ہو چکے ۔دوردراز علاقوں میں جانوروں کا چارہ تک دستیاب نہیں ۔ خوراک اوردیگر اشیاء کی قلت بھی نازک صورت اختیار کر چکی ہے ۔پیدا شدہ صورت حال کے پیش نظر بیسیوں خاندان دیگر علاقوں کو نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں ۔سبزہ نام کی کوئی چیز باقی نہیں ، خود رو جڑی بوٹیابھی سوکھنے لگی ہیں۔یہی صورتحال برقرار رہی توعلاقے میں قحط سالی بڑے گھمبیر مسائل پیدا کر دے گی ۔ تھر کا علاقہ بھی اسی قسم کی سنگین صورتحال سے دوچارہے۔تھر کا ریگستان اپنی جگہ حکمرانوں کی بے حسی کا نوحہ بیان کر رہا ہے۔ یہ علاقہ سندھ کا حصہ ہے، اس پر15سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لہذا وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ تھر کے مسائل حل کرنے کی سعی کریں ۔موجودہ خشک سالی قحط سالی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں دنیا میں کوئی چیز اب نا ممکن نہیں رہی مگر ہماری قوم کی بدقسمتی ہے کہ سیاسی قائدین عوام کے مسائل پر توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ۔ان لوگوں کی جدوجہد کا مرکز و محور محض’اقتدار ‘ کا حصول ہے ۔مخصوص خاندانوں نے ملک کو اپنی وراثتی جاگیر سمجھ رکھا ہے ۔باری کی سیاست نے ملک کو مسائل کی آماجگاہ بنا کے رکھ دیا ہے ۔ سیاستدانوں کو اپنی اولادوں کے مستقبل کی فکر کھائے جا رہی ہے ۔ وفاق مسلسل اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کر رہا ہے ،جنوبی پنجاب کی انتظامیہ ہو یا پنجاب کی وزارت اعلیٰ ،کابینہ کے اراکین ہوں یا بااثر سیاستدان عام لوگوں کے مسائل سے انہیں کوئی سروکار نہیں ۔خشک سالی نے زندگی کو معدوم کرکے رکھ دیا ہے ۔ چولستان کا علاقہ پنجاب میں واقع ہے ،بہاول نگر سے یہ2 گھنٹے جبکہ بہاولپور سے 4گھنٹے کی مسافت پر ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ پون صدی سے چولستان کے لوگ اور یہاں کی فصلیں بارش کے آسرے پر ہی زندہ اور آباد ہیں ۔چولستان کے ساتھ ساتھ تھر میں سسکتی انسانیت دھرتی پر بسنے والے انسانوں سے مدد کی طلبگار ہے ۔المیہ یہ ہے کہ اسقدر تباہی و بربادی کے باوجود ہمارے حکمرانوں نے ان علاقوں کے پریشان حال عوام کی حالت زار پرتوجہ نہیں دی ۔ہر حکومت نے اپنے اپنے ادوار میں ملک میں ڈیمز سمیت بے شمار منصوبوں کا اعلان کیا جن میں سے اکثر منصوبے محض اعلانات تک ہی محدود رہے یا اتنی دیر سے مکمل ہوئے کہ ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہو چکا۔ہر حکومت نے اپنے مخصوص مقاصد کے تحت جان بوجھ کر صحرائے چولستان کو نظر اندازکیا ،یہاں آج پر کوئی میگا پراجیکٹ شروع نہ کیا جا سکا۔جس سے پیاسے لوگوں اور جانوروں کی پیاس بجھ سکتی ۔چولستان کا علاقہ بنیادی انسانی ضرورت پانی سے بھی محروم چلا آرہا ہے ۔یہاں لوگوں کی زندگیوں کا دارو مدار فقط بارشوں کے پانی پر ہے جو ٹوبوں میں ذخیرہ کیا جاتا ہے ۔چولستان میں صحت عامہ اور پینے کے پانی کی فراہمی کا معاملہ کوئی آسان کام نہیں ، ہے ۔ پانی کی قلت سنگین حالات پیدا کررہی ہے اس سے پہلے کہ یہ خشک سالی کسی بڑے انسانی المیے میں بدل جائے اسے ٹالنے کی کوئی موثر تدبیر ہونی چاہیئے اور عملی طور پر پانی بچانے کا واحد راستہ نئے ڈیموں کی تعمیر ہے ،زندگی بچانے کے لئے اب کوئی تاخیر نہ کی جائے ،زاہد عباس سید کی نظم کا پہلا شعر بھی تو یہی ترغیب دے رہا ہے ،
اب نہ تاخیر کریں
ڈیم تعمیر کریں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button