کالمز

بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کا LLB طلبہ پر ظلم

کالم : بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کا LLB طلبہ پر ظلم
تحریر : محمد ریاض
پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں کیا جاسکتا ہے جہاں پر آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کو معیوب نہیں سمجھتا جاتا۔ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں بنیادی انسانی حقوق غصب کرنے والوں کیخلاف ایکشن لینا تو دور کی بات انکے خلاف آواز اُٹھانے والوں کو لبرل، غیر ملکی ایجنٹ و دیگر القابات سے پکارا جاتا ہے۔ انسان کو زندہ رہنے کے بنیادی حق کے بعد سب سے بڑا حق تعلیم کا حصول ہے، آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 (A) کے مطابق ”ریاست پاکستان پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تمام بچوں کو اس طریقے سے مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی جس کا تعین قانون کے ذریعے کیا جائے” اسی طرح آئین کے آرٹیکل 37 (C) کے مطابق ریاست پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے کہ ”تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو عام طور پر دستیاب اور اعلیٰ تعلیم کو میرٹ کی بنیاد پر سب کے لیے یکساں طور پر قابل رسائی بنانا”۔ اگر یہ چیک کرنا ہوکہ ریاست پاکستان آئین پاکستان میں درج بالا آرٹیکلز کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کررہی ہے یا نہیں تو آئیے آپکی توجہ بہاؤالدین زکریہ یونیورسٹی کی جانب سے قانون کے طالب علموں پر کئے جانے والے ظلم پر مرکوز کرواتے ہیں، ظلم کی انتہا ملاحظہ فرمائیں کہ 2018 سے 2021 کے سیشن کا اختتام 2021 میں ہوجانا چاہئے تھا مگر افسوس کہ اس سیشن کے سال اول کے امتحانات کے بعد سال دوم اور سال سوم کے امتحانات ابھی تک نہ لئے جاسکے۔ یعنی جس سیشن نے 2021 میں مکمل ہونا تھا وہ سیشن اب 2024 سے پہلے مکمل ہوتا دیکھائی نہیں دے رہا۔ اس تاخیر کے پس منظر پر جائیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ پاکستان میں 5 سالہ LLB پروگرام کے اجراء کے بعد 3 سالہ پروگرام کا آخری سیشن 2018 تا 2021 طے پایا تھا یعنی 2019 سے LLB کے صرف 5 سالہ پروگرام ہی میں داخلہ ہوا کریں گے۔ چونکہ 5 سالہ پروگرام میں عمر کی کی حد اور LAT ٹیسٹ وغیرہ کی پابندیاں عائد کردی گئی جبکہ 3 سالہ پروگرام میں اس طرح کی کوئی شرائط نہیں ہوا کرتی تھیں، لہذا بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے الحاق شدہ بہت سے پرائیویٹ کالجز نے 3 سالہ پروگرام میں داخلہ کے حوالہ سے ”آخری شاندار موقع” کا جھانسہ دے کر بہت سے طالب علموں سے بھاری بھر کم معاوضوں کے تحت بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں داخلے کروائے اور انکو سال اول کے امتحانات میں بیٹھنے کے مواقع فراہم کئے۔ حد تو یہ تھی کہ جس دن امتحان شروع ہونا تھا اس سے چند گھنٹے پہلے رات کی تاریکی میں یونیورسٹی کیمپس سے رول نمبر سلپ جاری ہورہی تھیں۔ پھر کچھ عرصہ بعد یونیورسٹی کے آڈٹ ڈیپارٹمنٹ نے یہ انکشاف کیا کہ امتحانات کے داخلوں کی مد میں جو رقوم یونیورسٹی کے بینک اکاؤنٹ میں ہونی چاہئے تھی اتنی رقم موجود نہیں ہے یعنی جتنے طالب علموں کو رول نمبر سلپ جاری ہوئیں تھیں ان طلبہ کی تعداد کے مطابق اکاؤنٹ میں رقم جمع ہی نہ ہوئی۔ اس سنگین مالی کرپشن کی بناء پر یونیورسٹی نے تقریبا ڈیڑھ سال تک سال اول کے نتائج روکے رکھے اور بالآخر ہائیکورٹ کے حکم کی بناء پر مشروط نتائج کا اعلان مارچ 2021 میں کیا۔جبکہ اسکے بعد ابھی تک سال اول کے سپلیمنٹری امتحانات منعقد نہ ہوسکے۔ تقریبا 2 سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود یونیورسٹی اس مالی گھپلے کے ذمہ داران کا تعین تو نہ کرسکی مگر ابھی تک 10 ہزار سے زائد طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگا کر ظلم کررہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یونیورسٹی کے حکام کی ہٹ دھرمی نے تمام حدیں عبور کرلیں ہیں۔ پچھلے مہینے اس سنگین مسئلہ کی بازگشت سینٹ آف پاکستان میں بھی گونجی جب جماعت اسلامی کے سینٹر مشتاق احمد نے اس مسئلہ کو اُٹھایا، اسی طرح پاکستان مسلم لیگ ن کی مریم نواز اور خواجہ سعد رفیق نے بھی اس مسئلہ پر خصوصی ٹویٹس بھی کئے۔ ہائیکورٹ بار ایسوی ایشن اور پنجاب بار کونسل نے بھی اس مسئلہ کو اُٹھایا۔ پچھلے دنوں گورنر پنجاب چودھری سرور کی صدارت میں اجلاس ہوا جس میں گورنر صاحب نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ایک ہفتہ کا الٹی میٹم دیا مگر کیا ہے کہ یونیورسٹی کے حکام کسی عدالت کسی ایگزیکٹو کسی سینٹ کو مانتے ہوئے دیکھائی نہیں دے رہے۔ 10 ہزار سے زائد متاثر طلبہ دادرسی کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں آئے روز احتجاج بھی کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ مگر کوئی شنوائی نہیں ہورہی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یونیورسٹی اپنے اندر چھپی کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرتی اور مالی گھپلے کے ذمہ دران کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرتی۔ اک بات سمجھ سے بالاتر ہے کیا ہم آج بھی انگریز راج میں رہ رہے ہیں؟ جہاں پر گوری سرکار کو عوام الناس کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ حکام جو چاہیں کریں انکو کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ ظلم کے اس سلسلہ کو فی الفور ختم ہونا چاہئے۔ یونیورسٹی کو سال دوم اور سال سوم کے امتحانات بیک وقت لیکر طلبہ کے قیمیتی سالوں کو مزید برباد ہونے سے بچانا ہوگا۔ آخیرمیں صدر پاکستان، وزیراعظم پاکستان، چیف جسٹس آف پاکستان سے درد مندانہ اپیل کی جاتی ہے کہ خدارا ان مظلوم طلبہ کی دادرسی کی جائے، 10 ہزار سے زائد متاثرہ طلبہ کو سال دوم اور سال سوم کے امتحانات لئے بغیر کامیاب قرار دیا جائے اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر سال دوم اور سال سوم کی چند کتابوں کے MCQ طرز کے امتحانات لئے جائیں اور نتائج بھی فوری جاری کئے جائیں تاکہ طلبہ کے قیمتی سالوں کو مزید ضائع ہونے سے بچایا جائے، چیرمین نیب سے اپیل کی جاتی ہے کہ اس مالی کرپشن کے میگا اسکینڈل پر اعلی سطحی تحقیقاتی کمیٹی بنائی جائے اور یونیورسٹی کے ذمہ داران کو قرار واقعی سزائیں بھی دلوائی جائیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button